سرچ
    سرچ کا طریقہ
    مرجع کا نام

احكام تقليد

احكام طہارت

احكام نماز

احكام نماز

روزے کے احکام

روزے کے احکام

احكام زکوٰۃ

احکام حج

خريد و فروخت کے احکام

احکام شرکت

احکام صلح

اجارہ (کرايہ ) کے احکام

احکام جعالہ

احکام مزارعہ

مساقات (آبياري ) کے احکام

احکام وکالت

قرض کے احکام

رہن کے احکام

ضامن بننے کے احکام

کفالت کے احکام

وديعت (امانت) کے احکام

عاريتاً دينے کے احکام

نکاح (شادي بياہ) کے احکام

طلاق کے احکام

غصب کے احکام

غصب کے احکام

جو مال انسان پالے اس کے احکام

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

کھانے پينے کي چيزوں کے احکام

نذر اور عہد کے احکام

قسم کھانے کے احکام

وقف کے احکام

وصيت کے احکام

ميراث کے احکام

احکام امر بالمعروف اور نہي عن...

دفاع کے مسائل و احکام

خاتمہ کے احکام

بعض مسائل جو اس زمانے ميں...

امام خميني کي خدمت ميں چند...

وہ اشخاص جو اپنے مال ميں خود...

حوالہ (ڈرافٹ) دينے کے احکام

1
مزارعہ اسے کہتے ہیں کہ مالک زمین یا وہ شخص جس کے اختیار میں زمین ہے زراعت کرنے والے سے اس طرح معاملہ کرے کہ زمین اس کے اختیار میں دیدے تاکہ وہ زراعت کرے اور زمین سے حاصل شدہ جنس میں سے کچھ مالک کو دے۔
2
مزارعہ کی چند شرائط ہیں :
١۔ یہ کہ مالک زمین زراعت کرنے والے سے کہے کہ میں زمین تیرے سپرد کرتا ہوں اور زراعت کرنے والا کہے میں قبول کرتا ہوں یا بات کئے بغیر مالک زمین زراعت کرنے والے کی سپردگی میںدیدے اوروہ اسے اپنی تحویل میںلے لے۔
٢۔ مالک زمین اور زراعت کرنے والا دونوں بالغ و عاقل ہوں اور قصد و اختیار سے عقد مزارعہ کوانجام دیںاور حاکم شرع نے انہیں اپنے اموال میں تصرف کرنے سے نہ روکا ہوا ہو بلکہ اگر بالغ ہوتے وقت وہ سفیہ ہوں تو اگرچہ حاکم شرع نے انہیں تصرف کرنے سے نہ روکا ہو۔تب بھی وہ عقد مزارعہ نہیں انجام دے سکتے اور یہ حکم تمام معاملات میں جاری ہے۔
٣۔ زمین سے تمام حاصل شدہ جنس ایک شخص سے مخصوص نہ کردی جائے۔
٤۔ ہر ایک کا حصہ مشاعاً ہو مثلاً حاصل شدہ جنس کا آدھا یا تیسرا حصہ وغیرہ ہواور وہ معین ہو۔ پس اگر یوں قرار دیں کہ زمین کے ایک ٹکڑے کے محصولات ایک کے ہیں اور دوسرے کے دوسرے کے ہیںتو صحیح نہیں ہے اور اسی طرح اگر مالک کہے کہ اس زمین میں زراعت کرو اور جتنا چاہو مجھے دینا تو صحیح نہیں ہے۔
٥۔ جتنی مدت زمین زراعت کرنے والے کے اختیار میں رہنی ہے، وہ معین ہو اور مدت اتنی ہو کہ محصولات زمین کا اس مدت میں حصول ممکن ہو اور زمین قابل زراعت ہو اور اگر زراعت اس میں ممکن نہ ہو لیکن یہ ممکن ہے کہ کوئی ایسا کام کریں کہ جس سے زراعت ہوجائے تو عقد مزارعہ صحیح ہے۔
٦۔ اگر ایسی جگہ ہے کہ جہاں مثلاً صرف ایک قسم کی زراعت ہوتی ہے تو اگرچہ اس کا نام بھی نہ لیں تو بھی وہ زراعت معین ہوگی اور اگر چند قسم کی زراعت ہوتی ہے تو جو زراعت انجام دینا چاہتاہے۔ اس کو معین کریں مگر یہ کہ ان کا کوئی معمول ہو کہ جس کے مطابق عمل کرتے ہوں۔
٧۔ مالک زمین کومعین کرے پس جس کے پاس زمین کے چند ٹکڑے ہیں اور وہ آپس میں تفاوت رکھتے ہیں۔ پس اگر زراعت کرنے والے سے کہے کہ ان میں سے کسی ایک میں زراعت کرلو اور اس کو معین نہ کرے تو عقد مزارعہ باطل ہے۔
٨۔ ہر ایک کو جو خرچ کرنا ہے وہ معین کیا جائے ۔ البتہ اگر ہر ایک کو جو خرچ کرناہے وہ معلوم ہو پھر معین کرنے کی ضرورت نہیں ۔
3
اگر مالک زراعت کرنے والے سے قرار داد کرے کہ محصولات کی اتنی مقدار تو میری اور بقیہ ہم آ پس میں تقسیم کرلیں گے تو اگر یہ معلوم ہو کہ اتنی مقدار کے بعد کچھ باقی رہے گا۔ تو مزارعہ صحیح ہے۔
4
اگر مزارعہ کی مدت ختم ہوجائے اورابھی تک محصولات ہاتھ نہ آئیں تو اگر مالک راضی ہوجائے کہ کرایہ کے ساتھ یا بغیر کرایہ کے زراعت زمین میں باقی رہ جائے اور زراعت کرنے والا بھی راضی ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر مالک راضی نہ ہوتا ہو تو وہ زراعت کرنے والے کو زراعت کے کاٹنے پر آمادہ کرسکتا ہے اور اگر کاٹنے سے زراعت کرنے والے کو کوئی ضرر پہنتا ہو تو ضروری نہیں اس کو اس کا عوض دے البتہ اگر زراعت کرنے والا راضی ہو کہ مالک کو کوئی چیز دیدے تو بھی مالک کو مجبور نہیں کرسکتا کہ زراعت زمین میں باقی رہ جائے۔
5
اگر کسی آفت کی وجہ سے زمین میں زراعت کرنا ممکن نہ ہو مثلاً پانی زمین سے منقطع ہوگیا ہو تو ااگر کچھ حصہ زراعت کا حاصل ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ چارہ و غیرہ جو جانوروں کو کھلا سکتے ہیں تو قرار داد کے مطابق یہ دونوں کا مال ہے اور بقیہ میں مزارعہ باطل ہے اور اگر زارع زراعت نہ کرے تو اگر زمین اس کے تصرف میں ہو اور مالک کا زمین میں کسی قسم کا تصرف نہیں تو اس مدت کا کرایہ مالک کو بمقدار معمول ادا کرے۔
6
اگر مالک اور زارع صیغہ پڑھ لیں توایک دوسرے کی رضامندی کے بغیر مزارعہ کو فسخ نہیں کرسکتے اور یہی حکم ہے اگر مالک مزارعہ کے ارادہ سے زمین کسی کے سپرد کردے اور لینے والا بھی اس قصد و ارادہ سے لے لے البتہ اگر عقد کے ضمن میں شرط کریں کہ ہر ایک یا کسی ایک کو فسخ کرنے کا حق ہوگا تو وہ قرار داد کے مطابق اسے فسخ کرسکتے ہیں۔
7
اگر مزارعہ کی قرار داد کے بعد مالک یا زارع مرجائے تو عقد مزارعہ فسخ نہیں ہوگا اور ان کے وارث ان کی جگہ ہوں گے البتہ اگر زارع مرجائے اور شرط یہ تھی کہ زارع خود زراعت انجام دے تو عقد مزارعہ فسخ ہوجائیگا۔ اور اگر زراعت ظاہر ہوچکی ہو تو اس کاحصہ اس کے وارثوں کو دیا جائے گا اور دوسرے حقوق بھی جو زارع رکھتا تھا۔ وہ بھی اسکے ورثا بطور ارث لے جائیں گے لیکن وہ مالک کو مجبور نہیں کر سکتے کہ زراعت زمین میں باقی رہ جائے۔
8
اگر زراعت کرنے کے بعد معلوم ہوجائے کہ معاملہ مزارعہ باطل تھا اور اگر بیچ زراعت کرنے والے کا تھا تو محصول بھی اسی کی ہوگی اور اس کو چاہیئے کہ زمین کا کرایہ اور وہ اخراجات جو مالک نے کئے تھے اور بیل یا کسی اور حیوان کا کرایہ جو اس کا تھا اور زراعت میںکام کیا تھا مالک کو دیدے مگر یہ کہ مزارعہ کا باطل ہونا اس جہت سے ہو کہ انہوں نے قرار داد کی تھی کہ تمام محصول زارع کا ہوگا۔ اس فرض میں لازم نہیںہے کہ زارع کوئی بھی چیز مالک کو دیدے۔
9
اگر بیج زارع کا ملک تھا اور زراعت کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ عقد مزارعہ باطل تھا تو اگر مالک اور زارع راضی ہوجائیں اوراگر مالک راضی نہ ہو تو زراعت پکنے سے پہلے زارع کو مجبور کرسکتا ہے کہ زراعت کاٹ لے اور زارع اگرچہ راضی ہو کہ مالک کو کچھ دیدے تو بھی اسے مجبور نہیں کر سکتا کہ زراعت زمین میں باقی رہ جائے اور اسی طرح مالک، زارع کو مجبور نہیں کر سکتا کہ کرایہ دیدے اور زراعت زمین میں باقی رہ جائے۔
10
اگر محصولات کے جمع کرنے اور مدت مزارعہ ختم ہونے کے بعد زراعت کی جڑیں زمین میں رہ جائیں اور اگلے سال محصولات حاصل ہوں تو اگر مالک اور زارع زراعت سے صرف نظر کر چکے ہوں تواس کا حکم مباحات کا ہے اور اگر قرارداد کی ہو کہ تمام محصول اور جڑ مشترک ہوگا توان کو آپس میں تقسیم کرنا چاہیئے اور اگر ان کی قرار داد فقط سال رواں کے محصول کے لئے تھی تو دوسرے سال کا محصول صاحب بیج کا ہوگا۔