سرچ
    سرچ کا طریقہ
    مرجع کا نام

احكام تقليد

احكام طہارت

احكام نماز

احكام نماز

روزے کے احکام

روزے کے احکام

احكام زکوٰۃ

احکام حج

خريد و فروخت کے احکام

احکام شرکت

احکام صلح

اجارہ (کرايہ ) کے احکام

احکام جعالہ

احکام مزارعہ

مساقات (آبياري ) کے احکام

احکام وکالت

قرض کے احکام

رہن کے احکام

ضامن بننے کے احکام

کفالت کے احکام

وديعت (امانت) کے احکام

عاريتاً دينے کے احکام

نکاح (شادي بياہ) کے احکام

طلاق کے احکام

غصب کے احکام

غصب کے احکام

جو مال انسان پالے اس کے احکام

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

کھانے پينے کي چيزوں کے احکام

نذر اور عہد کے احکام

قسم کھانے کے احکام

وقف کے احکام

وصيت کے احکام

ميراث کے احکام

احکام امر بالمعروف اور نہي عن...

دفاع کے مسائل و احکام

خاتمہ کے احکام

بعض مسائل جو اس زمانے ميں...

امام خميني کي خدمت ميں چند...

وہ اشخاص جو اپنے مال ميں خود...

حوالہ (ڈرافٹ) دينے کے احکام

1
پرونوٹ کی دو قسمیں ہیں:
١۔ پرونوٹ حقیقی : کہ کوئی آدمی جو کہ مقروض ہے اپنے قرض کے مقابلہ میں پرونوٹ دے۔
٢۔ پرونوٹ دوستانہ : کہ وہ کسی شخص کو دیا جائے ۔ بغیر اس کے کہ اس کے مقابلے میں وہ مقروض ہو۔
2
پرونوٹ حقیقی : اگر کوئی شخص مقروض سے لے لے تاکہ کسی اور شخص کے ساتھ اس سے کم رقم پر معاملہ کرے تو اس طرح معاملہ کرنا چاہیے کہ جس میں سود لازم نہ آئے۔ مثلاً یہ کہ وہ نوٹ جو مقروض کے ذمے اس کا قرض ہے وہ کمی پر بیچ دے اور اس کی رقم لے لے اور پرونوٹ اس کو دید ے تاکہ تیسرا شخص مقروض سے پورا مال لے لے۔ اس قسم کے تنزیلی معاملہ میں کوئی اشکال نہیں۔
3
پرونوٹ پیسہ نہیں ہے اور خود اس سے معاملہ نہیں ہوسکتا بلکہ رقم نوٹ ہے اور معاملہ اس سے ہوتا ہے اور پرونوٹ برآت اور قبض ہے اور تضمینی چیک جو ایران میں رائج ہے وہ مثل نوٹ کے پیسے ہیں اور ان سے خرید و فروخت کرنا کمی و زیادتی کے ساتھ کوئی اشکال نہیں رکھتا۔
4
جس کے پاس پرونوٹ ہے اگر اپنے مدمقابل سے رقم بطور قرض لے اور اسے پرونوٹ دیدے تاکہ مقررہ وقت پر لئے ہوئے قرض سے زیادہ لے تو وہ سود حرام ہے اور قرض باطل ہے۔
5
پرونوٹ دوستانہ جو آدمی کسی کو دیتا ہے کہ وہ تیسرے شخص کے پاس کمی پر معاملہ کرے اور تیسرا شخص وقت مقررہ پر صاحب پرونوٹ جو کہ پہلا شخص ہے سے حق رجوع رکھتا ہو، یہ چند طرح سے صحیح بن سکتا ہے۔
١۔ یہ کہ اس معاملے کہ برگشت اس طرف ہو کہ پہلا شخص دوسرے کو وکیل کرے کہ اس کے ذمے میں تیسرے شخص سے معاملہ کرے اور دوسرا شخص وکیل ہو کہ جو رقم لے رہا ہے وہ بطور قرض لے اور پہلا شخص جو قرض دینے والا ہے وقت مقررہ پر قرض کا مطالبہ دوسرے شخص سے کرے۔ اس بناء پر معاملے کے بعد پرونوٹ کا پہلا صاحب جو واقعہ میں مقروض نہیں تھا۔ تیسرے شخص کا مقروض ہوجائے گا اور دوسرا شخص قرض لینے کے بعد جتنی مقدار کہ اس نے تیسرے شخص سے لی ہے وہ پرونوٹ کے پہلے صاحب کا مقروض ہوجائے گا اور یہ قرض قرار داد نفع کے بغیر ہونا چاہئیے ورنہ باطل و حرام ہوگا۔ البتہ اگر زیادتی مفت میں دیدے یا کام کے مقابلے میں بطور استحباب شرعی دیدے تو کوئی حرج نہیں۔ اس بناء پر معاملہ کرنے کے بعد تیسرا شخص مدت مقررہ پر پہلے شخص کی طرف رجوع کرے اور اپنا قرض لے لے اور اگر ان پرونوٹوں میں متعارف یہ ہو کہ اگر پہلا شخص قرض نہ دے تو دوسرا رجوع کرسکتا ہے تو اس بناء پر شرط ضمنی ہوگی اور وہ رجوع کر سکے گا۔
٢۔ یہ کہ پرونوٹ دوستانہ دوسرے شخص کو دینا تاکہ وہ تیسرے کے پاس تنزیل کرے اور تیسرا شخص بھی یہ حق رکھتا ہو کہ وہ دوسرے کی طرف رجوع کرے تو یہ دو چیزوں کا سبب بنے گا۔ ایک یہ کہ پرونوٹ دینے کی وجہ سے لینے والا تیسرے کے نزدیک صاحب اعتبار ہوجائے گا او ر اس وجہ سے خود اس کے ساتھ معاملہ کرسکے گا اور دوسرا شخص تیسرے کا مقروض ہوجائے گا۔ دوسرا یہ کہ ان اشخاص کے نزدیک پہلا شخص ملتزم ہوگا کہ مقدار معلوم اگر دوسرے نے ادا نہ کی تو وہ دے گا۔ تو اس بنا پر معاملے کے بعد تیسرا شخص وقت مقرر پر دوسرے کی طرف رجوع کرے گا۔ اور چونکہ یہ امور عام ہیں اور ضمنی قراردادیں ہیں لہذا ان سے کوئی حرج نہیں ہے اور کچھ اور وجوہات بھی صحت کے لئے ہیں۔
6
چونکہ بنک اور تجارت کے معاملات میں یہ معمول ہے کہ جو شخص پرونوٹ پر دستخط کرے۔ اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اگر پرونوٹ دینے والا اپنے مقروض کو نہ دے تو چونکہ یہ ضمنی قرار دادیں اس معاملے کے ضمن میں ہے لہذا اس کی رعایت ضروری ہے لیکن اگر طرف مقابل اس معاہدہ کی اطلاع نہ رکھتا ہو تو اس کی طرف رجوع نہیں ہو سکتا۔
7
اگر قرض کو تاخیر میں ڈالنے کے لئے قرض خواہ چاہے بنک ہو یا کوئی اور مقروض سے کوئی چیز لے تو وہ حرام ہے ۔ اگرچہ مقروض اس پر راضی ہو۔
8
کرنسی، کاغذی دینار اور باقی کاغذی رقوم مثلاً ڈالر، لیرا ترکی، میں چونکہ قرضی کے علاوہ سود محقق نہیں ہوتا۔ تو ان میں سے بعض دوسرے بعض کے مقابلے میں کم و زیادہ دینے لینے جائز ہیں ۔ البتہ قرض والا سود سب میں تحقق رکھتا ہے لہذا جائز نہیں کہ دس دینار، بارہ دینار کے مقابلے میں دے۔