• صارفین کی تعداد :
  • 1963
  • 2/7/2012
  • تاريخ :

عظمت دوجہاں محمد اور انساني حقوق (حصہ دوم)

محمد (ص)

کسي دوسرے انسان کےحقوق کو عزت کي نگاہ سے ديکھنے کا مطلب يہ ہے کہ اس کي قدر و قيمت اس کے انساني اوصاف کي بناء پر ہوني چاہيے نہ کہ اس کي شخصيت کي بناء پر ، اس ميں ظاہري حد بنديوں، اختلافات اور نظرياتي کشمکش کي عمل داري نہيں ہوني چاہئے- حقوق انساني کے علم برداروں کي يہي دليل برملا تقاضا کرتي ہے کہ نبي اکرم جو بلاشک و شبہ اللہ تعاليٰ کے بعد دنيا کےسب سے بلند، اعليٰ اور بہترين ہستي ہيں اور آپ کےانسان کامل اور سب سے بہترين انسان ہونے پر دنيا کا اجماع اور اتفاق ہے تو پھر وہ کونسي بات ہے جو مخالفين اور اسلام دشمنوں کو آپ کي توہين پر آمادہ کرتي ہے؟ اور کيا ايسے بدبخت آزادي صحافت اور اس قسم کے ديگر نعروں کے علم بردار اشخاص کسي قسم کي رعايت کے مستحق ہو سکتے ہيں؟

ظاہر ہے کسي کا استحقاق ملحوظ خاطر نہ رکھنے والوں کا نہ کوئي استحقاق ہوسکتا ہے اور نہ ہي کوئي حق - ايسےافراد ملعون ہوتے ہيں اور انسانيت کے نام پر دھبہ -

حب رسول اور عشق رسول کےذيل ميں جوش ، غيرت اور محبت کےحوالےسےذات رسالت مآب کي عزت و ناموس کي حرمت و حفاظت کے ليے آج کي امت مسلمہ کو اقوام متحدہ، کامن ويلتھ اور غير جانبدار ممالک کي تحريک جيسےعالمي اداروں ميں توہين رسالت مآب کےخلاف قرارداد منظور کرانےسےکم کسي چيز پر ہرگز راضي نہيں ہونا چاہيے اور واضح کيا جائے کہ اس قسم کي گھناۆني اور قبيح حرکت کو عالم اسلام اپنےخلاف جنگ تصور کرےگا، عظمت و رفعت اور اسلامي تعليمات کے فروغ کے ذيل ميں ہوش کےحوالے سےحکمت و موعظت حسنہ کي روشني ميں تحقيق و تبليغ کے ليے اعليٰ تحقيقي ادارے برائے سيرت و ادب اسلامي و غيرہ تشکيل دينا چاہئيں - ضرورت اس امر کي ہےکہ سيرت مطہرہ علي صاحبہا التحيۃ السلام کےفروغ اور اشاعت کے ليے مسلمانوں کا ايک بين الاقوامي سطح کا ادارہ قائم کيا جائے- يہ ادارہ براہ راست او آئي سي کي نگراني ميں کام کرے- علاوہ ازيں جملہ مسلم ممالک اور مسلم اقليتيں بھي اپنے ممالک ميں عظمت و تحفظ ناموس رسالت کا کام کريں اور حسب ذيل اغراض و مقاصد کو سامنے رکھيں-

* حضورختم المرسلين و افضل النبيين محمد کي بارگاہ اقدس ميں ہديہ پيش کرنا جن کي بدولت دنيا کو ظلمت سے نجات ملي اور ہدايت کي روشني نصيب ہوئي-

* عہد جديد کے انسان کي مدد کرنا تاکہ وہ اسوہ حسنہ کي روشني ميں اپنے کردار و سيرت کي تشکيل کرسکے اور عہد حاضر کے مسائل کا حل تلاش کر سکي-

* دانشوروں اور محققين ميں اسلام کي روح بيدار کرنا تاکہ وہ آنحضرت کے ابدي پيغام کو نہايت مۆثر اور مناسب طور سے دنيا ميں پھيلا سکيں-

* آنحضرت کي عطاکردہ عالم گير آفاقي قدروں مثلاً اخوت ،عدل اور احسان کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کي سوانح اور سيرت کي تعليم و تحقيق کي حوصلہ افزائي کرنا -

* اسلام اور پيغمبر اسلام کے بارے ميں لاعلمي پر مبني غلط فہميوں اور تعصّبات کو دور کرنے کے ليے مناسب و مۆثر طريق کار وضع کرنا-

اس جگہ اس بات کو بھي سمجھ ليا جائے کہ عبادات کي ادائيگي حقوق اللہ کے حوالے سے ہر انسان کا اپنے خالق سے ذاتي معاملہ ہےجس ميں کمي اللہ رب العزت کے ہاں قابل مواخذہ ہونے ميں کوئي کلام نہيں ليکن اللہ کي رحمت ہر شئے پر حاوي ہے ہم ميں سے ہر ايک کو دعا کرني چاہيے کہ وہ ہماري لغزش اور کوتاہي کو اپني رحمت اور فضل سے معاف فرما دے اور يقينا يہ اس کي رحمت سے بعيد نہيں ہے- ہميں اپنےحق ميں اللہ سے عدل و انصاف سے زيادہ اس کے فضل و عنايت کي تمنا اور آرزو کرتے رہنا چاہئے-

ليکن معاملات يعني حقوق العباد ميں جان بوجھ کر کوتاہي بہ ہر طور اللہ کے قول کے مطابق ناقابل معافي عمل ہے- ہاں جب تک کہ فريق متاثرہ خود معاف نہ کر دی بے شمار احاديث ميں باہمي معاملات ميں کمي و کوتاہي کو دور کرنے پر زور ديا ہے-  معاملات ميں کجي کو ناپسنديدہ عمل گردانتے ہوئےاس پر سخت پکڑ اور وعيد بھي سنائي گئي ہے- ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائي ہے اس کي عزت اور اس کےجان و مال کا تحفظ اس کا ديني فريضہ ہے اس کے دکھ درد ميں شريک ہونا اس کے ليے ايمان کا بنيادي تقاضہ ہے- مسلمانوں نے ان تعليمات پر عمل پيرا ہوکر عالم انسان کو ايک بہترين اسلامي معاشرہ سے آشنا کيا- ہميں آج بھي ان تعليمات پر پہلے سے کہيں زيادہ عمل کي ضرورت ہے-

ہميں يہ بات ذہن نشين کر ليني چاہيے کہ اللہ کے حضور جواب دہي کے وقت حقوق العباد کي باري پہلے آئے گي جب کہ حقوق اللہ کي باري بعد ميں حقوق العباد کے بارے ميں اسلامي تعليمات کے صاف اور  واضح اصولوں کي روشني ميں يہ حقيقت کھل کر سامنے آجاتي ہے کہ انساني حقوق کي پاسداري اور ان پر عمل درآمد نہ صرف دين کا تقاضا ہے بلکہ اس راہ پر چلنے والوں کے ليے بدرجہ عبادت ہے-

اسلام ميں عبادات، معاملات، حقوق و فرائض، اقتصاد و معيشت اور تعليم و معاشرت کا بھرپور سلسلہ اپني تمام تر تابناکيوں سميت ميسر ہے- اسلام کے ہاں عبادت کا تصور بہت وسعت ليے ہوئے ہے- اس ميں حقوق اللہ اور حقوق العباد کي تقسيم ہے- انفرادي اور اجتماعي عبادت بھي ہے غرضيکہ زندگي کے مختلف دائروں ميں رہتے ہوئے ہر جائز کام اگر ذات باري تعاليٰ پر ايمان و يقين انفرادي و اجتماعي دنيا اور اخروي فوائد کےحصول کي نيت سے ادا کيا جائے تو وہ عبادت ہي کے زمرہ ميں شمار ہوتا ہے- ہميں ہر کام ميں يہي اصول سامنے رکھ کر اپنے روزمرہ کے معمولات ادا کرنے چاہئيں کہ اسي ميں دنياوي اور اخروي فلاح ہے-

تحرير : محمد اسلم لودھي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

محمد (ص) و اسلام انيسويں صدي ميں يورپ ميں