• صارفین کی تعداد :
  • 3752
  • 2/13/2012
  • تاريخ :

انشائيہ نگاري

کتاب

انشائيے کے سلسلے ميں اہم بات يہ ہے کہ ناول، افسانہ يا مضمون کے برعکس انشائيے کا انداز غير رسمي ہوتا ہے- انشائيے کو اگر کسي خاص ترتيب کا پابند بنانے کي کوشش کي جائے تو اس کي انفراديت مجروح ہو گي- شگفتگي اور تازگي انشائيے کي بنيادي صفت ہے- عموما ہر نثر پارہ اپني حيثيت ميں مکمل ہوتا ہے- مگر انشائيے ميں اکثر اوقات عدم تکميل کا احساس ہوتا ہے-انشائيہ نگار، مضمون نويس کے برعکس کوئي حتمي نتيجہ نہيں نکلتا- انشائيہ مائل بہ اختصار ہے-

 انشائيے کے موضوعات ميں بڑا تنوع ہے- انشائيہ لکھنے والے کي شخصيت اور اس کے داخلي تاثرات کا ترجمان ہے- انشائيہ در حقيقت شخصي اور غير شخصي يا داخلي اور خارجي پہلوؤ ں  کا سنگم ہے- انشائيہ نگار کسي مقصد يا اصلاح کي خاطر قلم نہيں اٹھاتا وہ کوئي نتيجہ اخذ کرتا ہے اور نہ کوئي مشورہ ديتا ہے-

اس کا انداز غير رسمي ہے- شگفتگي اور تازگي، اکثر اوقات نا مکمل باقي رہتا ہے- حتمي نتيجہ نہيں نکلتا ہے- مائل بہ اختصار ہے- انشائيہ در حقيقت شخصي اور غير شخصي يا داخلي اور خارجي پہلوğ کا سنگم ہے- انشائيہ نگار کا مقصد اخذ نتيجہ يا مشورہ دينا نہيں-

 انشائيہ کا موجد ايک فرانسيسي موجد "مونتين" ہے- اس کے تتبع ميں انگريزي انشائيے کا آغاز ہوا-

 ڈاکٹر وزير آغا کے انشائيوں کے دو مجموعے " خيال پارے" (اشاعت کا آغاز 1916ء) اور "چوري سے ياري تک" شايع ہو  چکے ہيں-

نظير صديقي کے انشائيوں کا مجموعہ "شہرت کي خاطر" اور "مشتاق قمر کا" شايع ہو چکا ہے-

بيسويں صدي سے قبل سر سيد، محمد حسين آزاد، مولوي نذير احمد اور عبدالحليم شرر کے بعض مضامين ميں انشائيہ کي بعض صفات ملتي ہيں- ذات کے لمس سے يہ تحريريں محروم ہيں- بيسويں صدي ميں فرحت اللہ بيگ، آغا شاعر قزلباش، نياز فتحپوري، مہدي افادي، يلدرم، ابوالکلام آزاد، خواجہ حسين نظامي، رشيد احمد صديقي، پطرس بخاري اور کرشن چنر ايسے لکھنے والے ہيں جنہوں نے لکھنے کو تو مضامين ہي لکھے اور ان کي تحريروں کے لۓ مضمون کا لفظ استعمال ہوا- ليکن ان ميں انشائيہ کے خد و خال واضح نظر آتے ہيں- انشائيہ کا لفظ در اصل ڈاکٹر وزير آغا کي ايجاد ہے- اختر اورينوي نے پہلي مرتبہ 1944ء ميں علي اکبر مقاصد کے مضامين کے لۓ استعمال کيا ليکن سترہ سال تک يہ لفظ اس مخصوص صنف کے لۓ استعمال نہ ہو سکا-  1959 ء  کے لگ بھگ ڈاکٹر وزير آغا نے يہ لفظ Essay  کے لۓ استعمال کيا-  ڈاکٹر وزير آغا کے رسالے "اوراق" نے اس سلسلے ميں بہت اہم کردار ادا کيا- انشائيہ صرف ربع صدي پہلے کي صنف ہے- غلام علي صديقي، ممتاز مفتي اور امجد حسين عبوري انشائيہ نگار ہيں- ان کي تحريروں ميں ذات کا لمس يا موجود نہيں يا انتہايي کمزور ہے-  ذات کا لمس، داخليت، تحصيل مسرت، ہلکا پھلکا انداز و --- انشائيہ کي بنيادي ضرورت ہے- جاويد صديقي اور داوود رہبر کے ہاں انشائيہ کي يہ بنيادي ضرورتيں پوري نظر آتي ہيں- وزير آغا نے اردو انشائيہ کے دور زرين کا آغاز کيا ہے-  وزير آغا کے ہم عصر انور سديد، جميل آذر، کامل القادري، سليم آغا قزلباش، مشکور حسين ياد،  ميرزا رياض  کے نام ليے جا سکتے ہيں- ان ميں سے ميرزا رياض، مشکور حسين ياد، اور کامل القادري فني اعتبار سے انشائيہ کا معيار برقرار نہيں رکھ سکے- غزل کي طرح انشائيہ کا ہر لفظ معني اور اہميت کا حامل ہے- غزل کي طرح انشائيہ جس قدر مختصر ہو اسي قدر موثر معلوم ہوتا ہے-

کتابیات:

اردو ادب بيسويں صدي ميں

اصناف ادب/ رفیع الدین ہاشمی

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان