• صارفین کی تعداد :
  • 9661
  • 2/15/2012
  • تاريخ :

گلابي رنگ لڑکيوں کي شناخت کيوں؟

گلابی رنگ لڑکیوں کی شناخت کیوں؟

رنگوں کے انتخاب کے معاملے ميں دنيا بھر ميں لڑکياں زيادہ تر گلابي اور لڑکے نيلے رنگ کو ترجيح ديتے ہيں اوريہ رنگ ان دونوں جنسوں کي پہحان سمجھے جاتے ہيں- مگر دوسري جنگ عظيم تک پسند اور شناخت کا ميعار بالکل الٹ تھا اور گلابي رنگ لڑکوں اور نيلا لڑکيوں سے منسوب کيا جاتا تھا-

گلابي رنگ شايد تمام لڑکيوں کا پسنديدہ نہ ہو اوردوسرے رنگ بھي ان کے ليے کشش رکھتے ہوں مگر دنيا بھر عموماً گلابي رنگ کوخواتين بالخصوص لڑکيوں سے منسوب کيا جاتا ہے اوران کے ملبوسات اور عام استعمال کي  اکثر اشياء ميں گلابي رنگ کي جھلک نماياں ہوتي ہے-

ريڈي ميڈ گارمنٹس کي دکانوں پر آپ کو لڑکيوں کے ملبوسات ميں گلابي رنگ واضح طورپر دکھائي دے گا- نوزائيدہ اور شير خوار بچيوں کے زيادہ تر ملبوسات تو ہوتے ہي گلابي رنگ کے ہيں- اسي طرح لڑکيوں کے استعمال کي دوسري چيزيں، مثلاً ان کے اسکول بيگ، کاپيوں کے کور، پنسليں ، قلم اور اسٹيشنري کي اکثر چيزوں ميں  گلابي رنگ زياد ہ نظر آئے گا-

مغربي ممالک کے اکثر گھروں ميں لڑکيوں کے کمروں ميں گلابي پينٹ کيا جاتا ہے اور اس کمرے کا فرنيچر اور روزمرہ ضرورت کي  دوسري اشياء بھي گلابي يا اس کے ملتے جلتے شيڈز کي ہوتي ہيں-

ويلنٹائن ڈے کے موقع پردنيا بھر ميں گلابي اور سرخ رنگ کے پھول اور کارڈ کروڑوں کي تعداد ميں  فروخت ہوتے ہيں-

ايسے والدين بھي ايک بڑي تعداد ميں موجود ہيں جو اپني بچيوں کو پيار سے پنکي يا روزي يا گلابو کہہ کر پکارتے ہيں-جس کي ايک واضح مثال بے نظر بھٹو کي ہےجنہيں گھر ميں پنکي کہا جاتاتھا-

رنگ کي شناخت صرف لڑکيوں اور خواتين تک ہي محدود نہيں ہے بلکہ اس دائرے ميں لڑکے اور مرد بھي آتے ہيں اور نيلے رنگ کو ان سے منسوب کيا جاتا ہے-

 گارمنٹس کي دکانوں ميں مردوں کے زيادہ تر لباس نيلے يا اس سے ملتے جلتے شيڈز ميں ہوتے ہيں- آپ کو اچھے  گرم مردانہ سوٹ زيادہ تر گہرے سے ہلکے اور سياہي مائل نيلے رنگوں ميں ہي مليں گے- برانڈ کمپنياں  مردوں کي شيونگ کريميں ،جل ، شيمپو اور روزہ مرہ استعمال کي دوسري اشياء زيادہ تر نيلي پيکنگ ميں ہي فروخت کے ليے پيش  کرتي ہيں-

اکثر گھروں ميں لڑکوں کے کمروں ميں نيلا رنگ کيا جاتا ہے- ان کي اسٹيشنري کي زيادہ تر اشياء بھي اسي رنگ کي ہوتي ہيں-

کيا جنس کے اعتبار سے رنگوں کي پسند انسان کے جين ميں شامل ہے؟  اس کي وجہ نفسياتي ہے يا اس کا تعلق ثقافتي روايات اور تاريخ سے ہے؟

دلچسپ بات يہ ہے کہ ان سب باتوں کاجواب نفي ميں ہے- زيادہ دور پرے کي بات نہيں ہے رنگوں کي يہ تخصيص  بالکل الٹ تھي- آج سے صرف چھ عشرے پہلے تک يہ سمجھاجاتاتھا کہ گلابي اور سرخ رنگ لڑکوں اور مردوں کے ليے ہوتے ہيں جب کہ لڑکيوں کو نيلا رنگ پہننا چاہيے-

اس سوچ  ميں تبديلي کا آغاز  غالباً پچھلي صدي  کے ابتدائي برسوں ميں  ہوا،  جس کي بڑے پيمانے پر مخالفت کي گئي - خاص طور پر لڑکيوں کو گلابي رنگ کے کپڑے پہنانے  کے خلاف اخبارات نے مہم چلائي-  ايک امريکي اخبار’ سنڈے سينٹي نل‘مارچ 1914 ء کي ايک اشاعت ميں لکھا کہ اگر آپ اپنے چھوٹے بچوں کو رنگوں کي شناخت دينا چاہتے ہيں تو لڑکوں کے ليے گلابي اور لڑکيوں کے ليے نيلے رنگ کاانتخاب کريں-

اسي طرح ايک اور جريدے’ ليڈيز ہوم جرنل‘ نے جون 1918ء ميں  اپنے ايک مضمون ميں لکھا کہ اگرچہ رنگوں کے چناۆ کے مسئلے پر کافي تنوع پايا جاتا ہے مگر ايک تسليم شدہ اصول يہ ہے کہ گلابي رنگ لڑکوں کے ليے ہے جب کہ نيلا لڑکيوں کے ليےہے-

اس دور کے کئي ناولوں اور کہانيوں ميں بھي جہاں کرداروں کے لباس  کا ذکر کيا گيا ہے، وہاں زيادہ تر لڑکياں نيلے اور لڑکے گلابي رنگوں ميں ملبوس دکھائي ديتے ہيں-

گلابي اور نيلے رنگ کي يہ بحث لگ بھگ چار عشرے تک  چلي اور 1950 ء کے لگ بھگ رنگوں کي مروجہ  ترتيب الٹ گئي - جس کے بعد يہ تسليم کرليا گيا کہ گلابي  لڑکيوں اور نيلا لڑکوں کا رنگ ہے-

اس تبديلي ميں دو چيزوں نے اہم کردار ادا کيا - پہلا ہٹلر کي نازي حکومت  اور دوسرا ريڈي ميڈ گارمنٹس بنانے والي برانڈ کمپنيوں نے-

ليکن اس سے پہلے يہ جاننا ضروري ہے کہ کئي سوسال تک نيلے کو لڑکيوں اور گلابي کو لڑکوں کا رنگ کيوں سمجھا جاتا رہا-  مغربي معاشرے ميں اس کي کڑياں قبل از مسيح کے دور سے ملتي  ہيں- روايات کے مطابق حضرت مريم  نيلالباس پہنتي تھي- ان سے عقيدت کے اظہار کے ليے عيسائي معاشروں ميں لڑکيوں کو نيلالباس پہنايا جاتاتھا- ماضي ميں يہ تصور بھي عام تھا کہ چونکہ آسمان نيلا ہوتا ہے اس ليے يہ رنگ تقدس اور پاکيزگي کي علامت ہے -چنانچہ لوگ اپني بچيوں کو نيلےلباس ميں ديکھنا پسند کرتے تھے-

ہمارے ہاں  آج بھي لڑکيوں کے اکثر اسکولوں کا  يونيفارم نيلا ہے اور دنيا کے اکثر ملکوں ميں گرل کائيڈ ز نيلا لباس پہنتي ہيں جس کي بنا پر ہمارے ہاں انہيں نيلي چڑيا بھي کہاجاتا ہے-

ماضي ميں گلابي رنگ  کي کوئي اپني عليحدہ حيثيت نہيں تھي اور اسے سرخ رنگ کے ايک شيڈ کے طورپر ديکھا جاتاتھا- چونکہ جنگوں ميں مرد حصہ  ليتے تھے اور اپنا خون بہاتےتھے جس کا  اظہار وہ سرخ لباس پہن کرکرتے تھے- ماضي کي پينٹنگز ميں اعليٰ حکومتي عہدے داروں ، فوجيوں اور معززين کے ملبوسات ميں سرخ رنگ کي جھلک  نماياں  طورپر دکھائي ديتي ہے-

ليکن چين کا ماضي ايک مختلف تصوير پيش کرتا ہے- قديم چين ميں لڑکوں کو نيلے اور لڑکيوں کو سرخ کپڑے پہنائے جاتےتھے- اس کي وجہ خالصتاً معاشي تھي- ماضي ميں کپڑے کو نيلا رنگ دينا خاصا مہنگا تھا جب کہ اس کے مقابلے ميں سرخ رنگ پر سب سے کم خرچ آتاتھا-اکثر مشرقي معاشروں کي طرح چين ميں بھي لڑکوں کو لڑکيوں پر فوقيت دي جاتي تھي اس ليے لڑکوں کو نيلے اور لڑکي کو سرخ کپڑے پہنائے جاتے تھے-اس قديم روايت کو  ماۆزئے تنگ نے توڑ کر پوري قوم کو نيلي يونيفارم پہنا دي-

اس  تبديلي ميں جرمن نازيوں نے غير دانستہ طورپر اہم کردار ادا کيا- نازيوں نے  اپني جيلوں ميں قيديوں کے ليے مختلف رنگوں کے لباس مقرر کررکھے تھے تاکہ دور سے ہي پہچان ليا جائے کہ وہ کس جرم کي سزا کاٹ رہے ہيں- مثلاً وہ يہوديوں کو نيلا اور ہم جنس پرستوں کو گلابي يونيفارم  پہناتےتھے- چنانچہ رفتہ رفتہ گلابي رنگ نسوانيت کي علامت بن گيا اور  يورپ اورمغربي ممالک کے ہم جنس پرستوں نے اس رنگ کو اپني  شناخت کے طورپر تسليم کرليا-اب  ان کي تقريبات ميں يہ رنگ نماياں دکھائي ديتا ہے اور ان کي   معاشي سرگرميوں  کو پنک برنس يعني گلابي کاروبار کہاجاتا ہے-

غالباً 1950ء کے لگ بھگ ريڈي ميڈ ملبوسات کي کمپنيوں نے لڑکيوں کے لباس ڈيزائن کرتے ہوئے گلابي رنگ کو ترجيح ديني شروع کردي، پھر گڑياں ، کھلونے اور بچيوں کے استعمال کي چيزيں تيار کرنے والي کمپنياں بھي اس جانب راغب ہونے لگيں اوراس کے بعد کے برسوں ميں گلابي رنگ نے  تقربياً دو ہزار سال  سے مروج نيلے رنگ کو نکال کر دنيا بھر ميں قبوليت اور مقبوليت کي سند حاصل کرلي-


متعلقہ تحريريں:

مستقبل ميں خلائي مخلوق سے ہمارے رابطے (حصّہ دوّم )