• صارفین کی تعداد :
  • 7270
  • 7/2/2014
  • تاريخ :

اسلام نے عورت کو پہچان دي

مغربی ثقافت اور  مسلمان عورت

اسلام کي آمد سے قبل  دنيا بھر ميں عورت کو بہت ظلم کا سامنا کرنا پڑتا رہا مگر اسلام نے عورت کو اس ظلم سے نجات دلائي اور معاشرے ميں اسے ماں ، بہن ، بيٹي ، بيوي اور مختلف طرح کے رشتوں کے روپ ميں ايسي عزت دي کہ جو اس کا اصل حق تھا - اسلام نے ان تمام قبيح رسوم کا قلع قمع کر ديا جو عورت کے انساني وقار کے منافي تھيں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے جن ميں سے چند درج ذيل ہيں :

1- اللہ تعاليٰ نے تخليق کے درجے ميں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے- انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہي رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے، ارشاد رباني ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً.

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاري پيدائش (کي ابتداء) ايک جان سے کي پھر اسي سے اس کا جوڑ پيدا فرمايا پھر ان دونوں ميں بکثرت مردوں اور عورتوں (کي تخليق) کو پھيلا ديا-‘(  النساء، 4 : 1 )

دنيا ميں فقط اسلام ايسا دين فطرت ہے، جس نے عورت کو عورت اور خدا کي حسين مخلوق سمجھا ہے اور اس کي بشري کمزوريوں کو نہيں اچھالا بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے حکم ديا کہ دونوں ميں بہتر وہي ہے جو تقويٰ ميں بہتر ہے- ان دانشوروں کي طرح اسلام نے عورت ميں احساسِ کمتري اور احساسِ ذلت پيدا نہيں کيا، بلکہ عورت کو ہر روحاني بلندي تک پہنچنے کے قابل بنايا ہے، بشرطيکہ وہ سچي مسلمان ہو اور سچي مسلمان عورت کا کردار فاطمۃ الزہرا سلام اللہ عليہا کي سيرت پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے- اگرچہ حضرت زہرا (س) کي زندگي بہت مختصر تھي، ليکن زندگي کے مختلف شعبوں، جہاد، سياست، گھر اور معاشرے و اجتماعيت ميں ان کي زندگي کي برکت، نورانيت، درخشندگي اور جامعيت نے انہيں ممتاز اور بے مثل و بے نظير بنا ديا ہے-انسان اس عالم آب، خاک و باد ميں جن عناصر کي کار فرمائي کے سہارے زندہ ہے، اگر وہ عناصر کسي وقت اپنا توازن کھو ديں اور اپنے فطري راستے سے ہٹ جائيں (جبکہ يہ ممکن نہيں کيونکہ وہ بااختيار نہيں ہيں) ان تمام چيزوں کے باوجود کائنات کا نظام باقي رہ سکتا ہے؟ مثلاً اگر مسلسل موسلا دھار بارش ہوتي رہے يا سورج مسلسل آگ برساتا رہے تو سرکش انسان کا حشر کيا ہوگا؟ اگر ہميشہ آندھياں اور ہميشہ ہواوءں کے جھکڑ چلتے رہيں تو کيا دنيا کا نظام باقي رہ سکتا ہے-؟ خود انسان کي اپني جسماني بناوٹ اور ہيئت ترکيبي اندروني و بيروني طور پر اس حقيقت کي شاہد ہے کہ اگر کوئي بھي چيز جسم ميں ضرورت سے زيادہ ہو جائے تو انسان کي زندگي خطرے ميں پڑ جاتي ہے- ( جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

مغربي معاشرہ ميں عورت کي حالت

کيا خواتين کے لئے بھي بہشتي حور العين ہيں؟