• صارفین کی تعداد :
  • 6768
  • 1/20/2008
  • تاريخ :

قرآن اور حضرت امام زمانہ(عج) علیہ السلام

 

قرآن مجید

حضرت مھدی علیہ السلام ، آخری زمانہ میں منجی عالم کے ظھور، صالحین کی حکومت اور ان پر کامیابی وکامرانی کے سلسلہ میں قرآن مجید میں بھت سی آیات کا تذکرہ ھواھے۔ جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے: ” ھم نے تورات کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور میں لکھا ھے کہ آخرکار صالح افراداس زمین کے مالک ھوں گے۔“

 

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ”شائستہ افراد“ کے سلسلہ میں فرماتے ھیں: ”اس سے مراد آخری زمانے میںحضرت مھدی علیہ السلام کے اصحاب ھیں۔“

 

ھم قر آن میں یہ بھی پڑھتے ھیں: ھم چاھتے ھیں کہ مستضعفین کے ساتہ اچھا برتاؤ کریں، یعنی ان کو لوگوں کا پیشوا اور اس زمین کا مالک بنا دیں۔“

 

بسم الله الرحمٰن الرحیم انا انزلناہ فی لیلة القدر

ھم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا، اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ھے؟ شب قدر ھزار مھینوں سے سے افضل ھے ۔ اس رات فرشتے اور روح القدس (جبرئیل) خدا کی اجازت سے تمام احکام اور تقدیروں کو لے کر نازل ھوتے ھیں یھاں تک سفیدی سحر نمودار ھو جائے۔

 

چنانچہ سو رھٴ قدر کی آیات سے واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ ھوتا ھے کہ ھرسال ایک شب ایسی آتی ھے کہ جو ھزار مھینوں سے افضل اوربھترھوتی ھے۔ وہ احادیث جو اس سورہ اور سورھٴ دخان کی ابتدائی آیات کی تفسیر کے سلسلہ میںوارد ھوئی ھیں ،سے یھی سمجہ میں آتا ھے کہ شب قدر میں فرشتے پورے ایک سال کے مقدرات کو ”زمانہ کے ولی مطلق “ کی خدمت میں لے کر آتے اور اس کے سامنے پیش کرتے ھیں۔ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں فرشتوں کے نازل ھونے کی جگہ آپ(ص) کا گھر تھا۔ جب ھم معرفت قرآن کے سلسلہ میں اس نتیجہ تک پھونچتے ھیں کہ ”شب قدر“ ھر سال آتی ھے تو ھمیں اس بات کی طرف توجہ کرنی چاھئے کہ ”صاحب شب قدر“ کو بھی ھمیشہ موجود ھونا چاھئے ورنہ پھر فرشتے کس پر نازل ھوتے ھیں؟؟ چونکہ ”قرآن کریم “ قیامت تک ھے اور ”حجت “ ھے اسی طرح صاحب شب قدر کا وجود بھی حتمی ھے اوروہ بھی” حجت“ ھے۔  اس زمانہ میں حجت خدا ، حضرت ولی عصر علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی نھیں ھے۔

 

چنانچہ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ھیں: ”امام زمین پر خدا کاامین ھوتا ھے اور لوگوں کے درمیان حجت خدا ھوتا ھے، آبادیوں اور سرزمینوںپر خدا کا خلیفہ ھوتا ھے۔“

 

مشھور اسلامی ریاضی داں اور معروف فلسفی ومتکلم خواجہ نصیر الدین طوسی فرماتے ھیں: ”خردمند افراد کے لئے یہ بات واضح ھے کہ لطف الٰھی کا انحصارامام (ع) کی تعیین میںھے۔ امام کاوجود بجائے خود ایک لطف الٰھی ھے، امور کی انجام دھی اس کا دوسرا لطف ھے اور اس کی غیبت  خود ھم سے مربوط ھے۔“