• صارفین کی تعداد :
  • 2984
  • 6/30/2009
  • تاريخ :

یوم ولادت حضرت علی علیہ السلام پر قائد انقلاب اسلامی کا  ایک خطاب

(حصّہ اوّل)

حضرت امام علی علیہ السلام

بسم ‏اللَّه‏ الرّحمن ‏الرّحيم‏

امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا یوم ولادت، ماہ رجب کا ایک بڑا مبارک اور اہم دن سمجھا جاتا ہے، میں آپ عزیز بھائی بہنوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بلند مقام اور شان و منزلت کے قائل ہیں اسی طرح دنیا کے تمام مظلوموں، حریت اور انصاف پسندوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں جو عدل علوی سے واقف ہیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ ہمیں حقیقی معنی میں علی علیہ السلام کا شیعہ اور تابع و پیروکار بننے کی توفیق عطا کرے۔ چند جملے اس مبارک دن کی مناسبت سے عرض کرنا چاہوں گا؛ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خصوصیات، آپ کے ایمان خالص کا وہ نور، اسلام کے آغاز سے عمر کے آخری لمحے تک آپ کا دشوار اور سخت جہاد جو آپ انجام دیتے رہے۔ وہ بے نظیر عدل و انصاف جو آج تک مسلمانوں ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی ضرب المثل بنا ہوا ہے۔ وہ تضرع ، خضوع و خشوع میں ڈوبی پر خلوص عبادت اور آپ کی دیگر صفات، ایسی چیزیں نہیں ہیں جن میں مسلمانوں کے درمیان خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں کوئي اختلاف اور عدم اتفاق ہو۔

امیر المومنین علیہ السلام اس عظیم شخصیت کے مالک ہیں جس کی عظمت اور خصوصیات، اور شان و منزلت کے بارے میں تمام مسلم فرقوں کے درمیان اتفاق راۓ پایا جاتا ہے۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام مسلم فرقوں کے لئے نقطہ اشتراک و اتحاد قرار پا سکتے ہیں۔ ہر زمانے اور دور میں تمام مسلم فرقے سوائے نواصب کے جو اسلامی فرقوں میں شامل نہیں، امیرالمومنین علیہ السلام کی اسی شان و منزلت کے قائل رہے ہیں جو آج آپ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں دیکھتے ہیں۔ بنابریں امیر المومنین علیہ السلام تمام مسلم فرقوں کا نقطہ اشتراک اور سنگم ہیں اور آپ کی ذات اتحاد بین المسلمین کا سرچشمہ قرار پا سکتی ہے۔

آج عالم اسلام کو اس چیز کی ضرورت بھی ہے۔ آج اسلام دشمن طاقتیں، جو نہ اس (مسلم) فرقے کی ہمدرد ہیں اور نہ اس فرقے کی، کبھی ایک فرقے کے خلاف دوسرے فرقے کی حمایت کر دیتی ہیں اور کبھی اس کے بر عکس عمل کرتی ہیں، ان کا سارا ھم وغم یہ ہے کہ مسلمانوں میں شگاف ڈالا جائے، خلیج پیدا کیجئے، انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا جائے۔ ایسے پر محن دور میں جب مسلمانوں کو اتحاد کی شدید ضرورت ہے، امیر المومنین علی علیہ السلام اس اتحاد کا مظہر بن سکتے ہیں۔

 اس عظیم ہستی کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں جس کی عظمت کے سب معترف اور قائل ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امیر المومنین علیہ السلام بس ہمارے ہیں۔ ہم شیعہ زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں کہ (معروفین بتصدیقنا ایاکم) ہم امیر المومنین اور خاندان پیغمبر اسلام سے عشق و مودت کے لئے معروف ہیں لیکن ہم یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ امیر المومنین علیہ السلام صرف ہمارے ہیں۔ نہیں، دنیا کے تمام مسلمان، مختلف فرقے امیر المومنین علیہ السلام کےبارے میں یہ عقیدہ رکتھے ہیں کہ یہ عظیم ہستی، یہ بے مثال شخصیت، یہ اسلام کا مظہر کامل، ایک لمحے کے لئے بھی پیغمبر اسلام کی پیروی اور اتباع سے غافل نہیں ہوا، بچپن سے لڑکپن، نوجوانی سے جوانی اور پھر زندگی کے آخری لمحے تک، اللہ تعالی، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لئے مجاہدت کے سلسلے میں آپ سے ایک لمحے کے لئے بھی کوئي کوتاہی نہیں کی۔ تو یہ ایک نکتہ ہے جسے ہم سب شیعہ سنی یا ان دونوں فرقوں کے درمیان پائے جانے والے دیگر فرقے اتحاد و یکجہتی کا محور و مرکز بنا سکتے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام سب کے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں ان نعروں اور روشوں کو اختیار کیا جو تمام انسانوں سے متعلق ہیں۔ میں اس بار میں کچھ وضاحت کروں گا ، تو یہ رہا ایک نکتہ۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی محبت بہت اہم قیمتی اور با ارزش ہے۔

روایت میں ہے کہ جس شخص کے دل میں کسی کی محبت ہو وہ قیامت میں اسی کے ساتھ محشور کیا جائے گا۔ محبت کی بڑی ارزش ہے لیکن محبت ہی کافی نہیں ہے۔ پیروی اور اتباع ضروری ہے۔ ہم دنیا میں شیعہ کہلاتے ہیں، شیعہ کی تعریف اس طرح کی گئي ہے " الشیعۃ من شايع علیا" ان کے نقش قدم پر ہمیں چلنا چاہئے، یہ تو معلوم ہے کہ ہم کچھ بھی کر لیں مولائے کائنات کے مقام تک نہیں پہنچیں گے لیکن اس عظیم بلندی کی طرح بڑھنا تو چاہئے۔

اب آپ غور کیجئے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی با برکت، با معنی اور سبق آموز زندگی میں کس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی؟ ایک تو عدل و انصاف اور مساوات ہے، عدل و انصاف سیرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شاید سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔

ظالم سے کوئي سمجھوتہ نہ کرنا، مظلوم سے ہمدردی، مظلوم کو انصاف دلانے کے لئے مدد، وہ چیزیں ہیں جو امیر المومنین علیہ السلام کی حیات طیبہ، آپ کے اقوال اور نہج البلاغہ میں مرقوم خطبوں میں جگہ جگہ جلوہ فگن ہیں۔ مولائے متقیان کے ان جملوں پر توجہ فرمائیے " و اللَّه لأن ابيت على حسك السّعدان مسهّدا أو أجرّ فى‏الأغلال مصفّدا احبّ الىّ من أن القى اللَّه ... ظالما لبعض العباد و غاصبا لشئ من الحطام" یہ ہے حکومت امیرالمومنین علیہ السلام کی پہچان، یعنی اگر زندگی کے دشوار ترین موڑ پر پہنچ جاؤں تو بھی ناممکن ہے کہ کسی بھی مخلوق کے ساتھ کوئي نا انصافی کروں اور اپنے لئے دنیوی حطام، دنیوی ذخائر حاصل کروں۔

https://urdu.khamenei.ir


متعلقہ تحریریں:

غدیر کا واقعہ لافانی و جاودانی ھے

"" غدیر خم "" تاریخ اسلام کا ایک اہم واقعہ