• صارفین کی تعداد :
  • 3030
  • 11/28/2011
  • تاريخ :

بچّون کا احترام (دوسرا حصّہ)

سوالیہ نشان

حضرت على عليہ السلام نے فرمايا:

سب سے گھٹيا انسان وہ ہے جو دوسروں کى توہين کرے

رسول الله ہميشہ اور ہر جگہ بچوں سے محبت اور شفقت سے پيشآتے جب وہ سفر سے واپسآتے تو بچے ان کے استقبال کے ليے دوڑتے رسول الله ان سے پيار کرتے ، محبت کرتے اور ان ميں سے بعض کو اپنے ساتھ سوار کرليتے اور اپنے اصحاب سے بھى وہ کہتے کہ دوسروں کو وہ سوار کرليں اور اس حال ميں شہر کے اندر لوٹتے بچوں سے يہاں تک شيرخوار بچوں کى توہين سے بھى سختى سے پرہيز کرنا چاہيے ام الفضل کہتى ہيں رسول خدا صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے حسين عليہ السلام کو جب کہ وہ شيرخوار تھے مجھ سے لے ليا اور سينہ سے لگايا حسين عليہ السلام نے رسول (ع) کے کپڑوں پر پيشاب کرديا ميں نے حسين (ع) کو رسول الله (ص) سے زبردستى لے ليا اس طرح سے کہ وہ رونے لگے رسول الله (ص) نے مجھ سے فرمايا ام الفضل آرام سے اس پيشاب کو پانى پاک کردے گا ليکن حسين عليہ السلام کے دل سے ناراضى اور  ناراحتى کون دور کرے گا ؟

ايک صاحب لکھتے ہيں : ماں باپ کى نظر ميں ميرى کوئي اہميّت نہ تھى نہ صرف وہ ميرا احترام نہ کرتے تھے بلکہ اکثر ميرى توہين اور سرزنش کرتے رہتے کاموں ميں مجھے شريک نہ کرتے اور اگر ميں کوئي کام انجام ديتا تو اسميں سے کپڑے نکالتے دوستوں کے سامنے يہاں تک کہ ميرے دوستوں کے سامنے ميرى بے عزتى کر ديتے مجھے دوسروں کے سامنے بولنے کى اجازت نہ ديتے اس وجہ سے ہميشہ ميرے دل ميں اپنے بارے ميں احساس ذلت و حقارت رہتا ميں اپنے تئيں ايک فضول اور اضافى چيز سمجھتا اب جب کہ ميں بڑا ہوگيا ہوں اب بھى ميرى وہى کيفيت باقى ہے بڑے کام سامنے آجائيں تو ميں اپنے آپ کو کمزور سمجھنے لگتا ہوں کاموں کى انجام وہى ميں فيصلہ نہيں کرپاتا ميں اپنے تئيں کہتا ہوں ميرى رائے چونکہ درست نہيں ہے اس ليے دوسروں کو ميرے بارے ميں اظہار رائے کرنا چاہيے اپنے تئيں حقير و ناچيز سمجھتا ہوں سمجھے اپنے آپ پر اعتماد نہيں ہے يہاں تک کہ دوستوں کى موجودگى ميں مجھ ميں بات کرنے کى ہمت نہيں ہوتى اور اگر کچھ کہہ بيٹھيوں تو کئي گھنٹے سوچتا رہتا ہوں کہ کيا ميرى بات درست تھى اور صحيح موقع پر تھى ۔

بشکريہ : مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان