• صارفین کی تعداد :
  • 4570
  • 3/29/2010
  • تاريخ :

اصالتِ روح (حصّہ سوّم)

استاد شہید مرتضیٰ مطہری

درحقیقت، دیكارت كا نظریہ ایك طرح سے افلاطون كے نظریے كی طرف بازگشت ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے كہ دوبارہ طائر اور گھونسلے كی یاد دلائی جارہی ہے۔ كیونكہ دیكارت فطری اور ذاتی تصوّرات كا قائل ہے اور كہیں كہیں پر شروع سے ہی اس نے نفس كو موجود مانا ہے، اس لحاظ سے اس كا نظریہ افلاطون كے نظریہ سے قریب ہوجاتا ہے۔ دوسرے یہ كہ روح اور بدن كے باہمی تعلق كے بارے میں اس كا بیان اتنا ہی مختصر ہے جتنا كہ نظریہٴ افلاطون كا بیان مختصر تھا۔

یہ رجعت پسندی بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوئی، اس لیے كہ روح اور بدن كا ایك دوسرے سے تعلق كوئی ایسا مسئلہ نہ تھا جیسے چھپایا جانا ضروری ہو اور محض ان دونوں كی جدائی كے اسباب و وجوہ پر اكتفا كی جائے۔ لہٰذا دیكارت كے بعد دانشوروں نے ان دونوں كے مابین تعلق كو جاننے كی كوشش شروع كی، جو شخص تاریخ فلسفہٴ عصر جدید سے پوری طرح باخبر ہے، وہ جانتا ہے كہ روح اور بدن كے تعلق كے بارے میں جانكاری حاصل كرنے كے لئے نئے فلاسفر نے كتنی كوشش كی ہے اور كتنے مكاتب فكر اور مختلف نظریات نے جنم لیا اور كس حد تك افراط و تفریط میں آگے بڑھ چكے ہیں، كچھ لوگوں نے نفسیاتی ظواہر كو تركیبات مادہ كی معمولی خاصیت جانا اور ہر طرح كی دوئی (روح اور بدن كے درمیان) ہونے كے انكاری ہوگئے، دوسرے گروہ نے جسم اور مادہ كو بے بنیاد، اور روح كے لیے محض نمائش جانا۔ اس طرح سے انہوں نے اپنے خیال میں روح اور بدن كی جدائی اور دوئی كو ختم كیا، ایك ایسا گروہ بھی ہے جس نے تھك كر اس بحث كو انسان كی قدرت ہی سے خارج قرار دیدیا۔

اگر چہ روحی اور جسمی امور اور ان كے باہمی تعلق كے بارے میں دور حاضر كے دانشور اور فلسفی كسی مفید نتیجہ پر نہیں پہنچ سكے، لیكن ان كی بے انتہا كوشش نے سائینس كے تمام شعبوں، خاص طور سے حیاتیات، فیزیالوجی اور نفسیات میں بہت اچھے اچھے فوائد و نتائج اہل علم كے حوالے كیے كبھی بھی ان مضامین پر كام كرنے والے محقق روح اور بدن نیز ان دونوں كے درمیان تعلق كے بارے میں اپنی تحقیقات كے نتائج حاصل كرنے كے سلسلے میں سوچ بھی نہیں سكتے تھے، لیكن ان تحقیقات نے اس مسئلہ كی تحقیق كے لیے راہ ہموار كر دی اور ہم انشاء الله ان نكات كی طرف اشارہ كریں گے۔

ابتدا میں ہم نے ارسطو اور ابن سینا كے نظریہ كی طرف اجمالی طور پر اشارہ كرتے ہوئے بیان كیا تھا كہ اس نظریہ میں روح اور بدن كی وحدت اور تعلق كی طرف توجہ مبذول ہوئی اور افلاطون كا نظریہٴ دوئی رفتہ رفتہ فراموش كے سپرد ہوگیا۔

اب یہ غور كرنا ہے كہ ابن سینا كے بعد آنے والے مسلمان فلسفیوں كے نزدیك اس مسئلے نے كیا صورت اختیار كی؟

ابن سینا كے زمانے كے بعد مسلم فلاسفہ نے براہ راست اس مسئلہ پر تحقیقی كام انجام نہیں دیا، لیكن فلسفے كا سب سے عام اور اساسی اور مقدّم مسئلہ یعنی فلسفہٴ وجود میں ترقی اور تحول كے اعتبار سے ایك عظیم انقلاب آیا، جس نے ایك طرح سے زیادہ تر فلسفی مسائل خاص طور سے روح اور بدن كے مسئلہ وحدت اور دوئی كو متاثر كیا۔

 

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

مترجم: خادم حسین

پیشكش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین


متعلقہ تحریریں :

اسلام  میں طلاق

خدا اپنے بندے کی بات سنتا ہے

يورپ کي موجودہ تمدن کي بنياد