• صارفین کی تعداد :
  • 3172
  • 7/12/2010
  • تاريخ :

ہر اختلاف انگیز صدا شیطان کی صدا ہے (حصّہ سوّم)

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ‏ای

س: انقلاب کے بعد ہمیں بعض دشمنوں کا سامنا کردستان اور سیستان و بلوچستان بھی کرنا پڑا جنہوں نے شیعہ اور سنی کے نام پر اختلافات کو ہوا دی اور ایک کانفرنس کے ذریعے اس کی تأئید کی گئی؛ اسلامی جمہوری حکومت کی نظر میں آپ اس مسئلے کا کس طرح تجزیہ کرنا چاہیں گے؟

ج: کردستان کی مسئلے میں زیادہ حقیقت بینی کی ضرورت ہے؛ کردستان میں شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جن لوگوں نے کردستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مسلح بغاوت کا آغاز کیا ان کا اسلام پر یقین نہیں تھا؛ وہ نہ تو تشیع پر یقین رکھتے تھے اور نہ ہی تسنن پر۔

جن لوگوں نے انقلاب کی ابتداء میں اور پہلے ہی دس دنوں کے دوران مہاباد کی فوجی چھاؤنی پر قبضہ کیا وہ سب کمیونسٹ تھے اور اسلام اور قرآن کو باضابطہ طور پر رد کیا کرتے تھے۔ نہ شیعہ تھے اور نہ ہی سنی تھے۔ یہ تھا کردستان کا مسئلہ جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا تھا اور سیستان و بلوچستان میں بھی بحمد اللہ کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا اور ایسا مسئلہ کبھی پیش بھی نہیں آئے گا۔ اور اس کی وجہ وہاں بسنے والے مسلمانوں کی حقیقت پسندی ہے۔

کردستان میں مسئلہ تھا جو درحقیقت اسلامی جمہوریہ کی مخالفت سے شروع ہوا تھا اور اس کا محرک شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں تھا۔ کردستان کے شہروں اور دیہاتوں کے عام باشندوں کی پہلی سے خواہش تھی کہ یہ فساد طلب لوگ ان کے شہروں سے نکال باہر کئے جائیں تاکہ یہ لوگ وہاں جنگ کی آگ مشتعل نہ کرسکیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے فراہم کردہ آسائش بھری زندگی ان کے لئے فراہم رہے اور اس کو یہ لوگ مخدوش نہ کرسکیں۔ لہذا حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں تھا۔

تاہم ایران میں کئی خفیہ ہاتھ روز اول سے کام کررہے تھے جو اب بھی سرگرم عمل ہیں تا کہ شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف ڈالیں۔ بعض لوگوں نے اختلافات کے نعرے بھی بلند کئے ہیں؛ خوشی کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی کان یہ باتیں سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ لوگ سیستان و بلوچستان کے گوشوں میں بھی ہیں کردستان کے گوشوں میں بھی ہیں۔ لیکن بلوچستان، ترکمن صحرا، کردستان، جنوبی خراسان اور مغربی آذربادئیجان کے سنی علاقوں کے حقیقت پسند ترین، عالم‏ترین، آگاہ‏ترین اور مخلص‏ترین سنی علماء اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی اور شیعہ اور سنی کے درمیان وحدت و یکجہتی کے خواہاں ہیں اور انھوں نے عملی میدان میں بھی اپنی صداقت کو ثابت کرکے دکھایا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور شیعہ علماء بھی ان کے ساتھ مل کر ان ہی کے ہمصدا ہوگئے سب آپس میں مہربان، سب بھائی بھائی اور سب بھائی چارے اور اخوت کو تقویت پہنچانے کے خواہاں، انشاءاللہ۔

ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی ( آبنا ڈآٹ آئی آر )


متعلقہ تحریریں:

مھناز رؤفی کا انٹرویو

 ویٹیکن اور مصرمیں ایران کے سابق سفیر جناب سید خسروشاہی کا انٹرویو