• صارفین کی تعداد :
  • 3018
  • 8/2/2010
  • تاريخ :

ہر اختلاف انگیز صدا شیطان کی صدا ہے (حصّہ چهارم)

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ‏ای

س: تفرقہ پھیلانے کی استعماری سازش کے حوالے سے عراق کی طرف سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ کا کردار کیا ہے؟

ج: یہ جنگ تفرقہ پھیلانے کے حوالے سے اہم کردار رکھتی ہے۔ البتہ جنگ کی آگ بھڑکانے والی قوتوں کے تفرقہ انگیزی پر مبنی اہداف متعدد اہداف تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ اس جنگ کو عرب اور عجم کی جنگ میں تبدیل کردیں اور عرب ممالک کو متحد کرکے ایران کے مدمقابل لاکھڑا کردیں اور فارس اور عرب مسلمانوں کے درمیان عظیم تفرقہ و اختلاف واقع ہوجائے۔ جنگ کی آگ بھڑکانے والی قوتین اس مقصد کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکیں؛ کیونکہ عرب ممالک کے درمیان ایسے ممالک اور حکومتیں بھی ہیں جنہوں نے ابتدائے جنگ سے ہماری تأئید کی اور ہمارے موقف کو حق بجانب قرار دیا اور عراق کی جابر و جارح حکومت کے ساتھ اپنی مخالفت کا آشکارا اعلان کیا؛ اس کے علاوہ عرب قومیں بھی ہمارے حق بجانب موقف کے سلسلے میں ہماری حامی اور ہمارے ساتھ متفق تھیں۔ اسی وقت جبکہ عراق کی مسلح افواج ہمارے خلاف لڑرہی ہیں مگر عراقی قوم ہمارے ساتھ اور ہماری حمایت کرتی ہے اور اپنی حکومت کو جارح قرار دیتی ہے۔ اسی طرح مشرق وسطی اور خلیج فارس کی قوموں کا بھی یہی حال ہے۔

قوموں کا اس مسئلے میں نہ صرف کوئی اختلاف سامنے آیا ہے بلکہ ہماری حامی اور ہمارے ساتھ متفق ہیں اس کے باوجود عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کے اختلاف انگیزی پر مبنی اثرات بہت سارے ہیں؛ جیسے:

اسی جنگ نے عربوں کو تقسیم در تقسیم کر دیا: عربوں کی ترقی پسند قوتیں ایک محاذ میں کھڑی ہوگئیں اور قدامت پسند و بقائی قوتیں دوسری صف میں کھڑی ہوگئیں صرف اسی جنگ کی وجہ سے۔ یہ جنگ پوری دنیا میں مسلمان بھائیوں کے درمیان ایک دوسرے کی نسبت بے اعتمادی کا باعث ہوئی۔ اس جنگ کی وجہ سے مشترکہ سرحدیں رکھنے والے ممالک کے درمیان ایک قسم کی بے اعتمادی نمودار ہوئی جبکہ عرصۂ دراز سے اس علاقے کے ممالک پرامن زندگی گذار رہے تھے اور کسی قسم کی جارحیت اور تجاوز کی صورت حال نہ تھی؛ لیکن اچانک ایک ملک کسی دلیل و سبب کے بغیر اپنی فوجیں اپنے پڑوسی ملک میں ایران میں داخل کردیتا ہے اور بعض مقامات پر 70 کلومیٹر تک گھس آتا ہے؛ ظاہر ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے خطے کے ممالک کے درمیان بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے اور سارے ممالک ہروقت فکرمند رہتے ہیں کہ کہیں پڑوسی ملک کی طرف سے جارحیت کا شکار نہ ہوجائیں چنانچہ وہ ہم دین اور ہم مسلک پڑوسیوں کے ساتھ اپنی سرحدوں پر زبردست سیکورٹی انتظامات کرتے ہیں۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ جو تفرقہ عراقی حکمرانوں کی طرف سے علاقے میں ڈال دیا گیا ہے اور جو تفرقہ وہ ڈالنا چاہتے تھے یہ ایک خیانت اور غداری ہے اور انھوں نے اس خیانت کے ذریعے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ اب بھی پوری اسلامی امت کے دلوں میں ایک تفرقہ اور ایک دودلی کی کیفیت ہے جس کی وجہ یہی جنگ اور عراقی افواج کا یہ غاصبانہ اقدام ہے اور ہم نے نہ ماضی میں ایسے اقدام کے سامنے سرتسلیم خم کیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں سرتسلیم خم کریں گے اور اس کا سبب اس حرکت کے وسیع منفی اثرات ہیں۔

ہم نے سوچا کہ اگر اس جارحانہ اقدام کے سامنے سستی کا اظہار کریں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے جارح کو جارحیت جاری رکھنے کے مواقع فراہم کئے ہیں اور جارح کو مواقع فراہم کرنا ناقابل بخشش گناہ ہے؛ یہ جارح کی حوصلہ افزائی ہے اور ہم کسی صورت میں بھی جارح کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے۔ ہم بند مٹھیوں، ہتھیاروں اور اپنی امت کے عزم کی مدد سے جارحین کے منہ پر پر مکا رسید کریں گے اور اسے اپنی سرحدوں سے نکال باہر کریں گے تا کہ جارحیت کے ارادے ذہنوں میں پرورش دینے والی حکومتیں جان لیں کہ جارحیت کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔

ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی ( آبنا ڈآٹ آئی آر )


متعلقہ تحریریں:

مھناز رؤفی کا انٹرویو

 ویٹیکن اور مصرمیں ایران کے سابق سفیر جناب سید خسروشاہی کا انٹرویو