• صارفین کی تعداد :
  • 2322
  • 8/28/2010
  • تاريخ :

شہید رجائي اور شہید باہنر ، عہد ساز شخصیات

شہید رجائي اور شہید باہنر
آج کل اسلامی جمہوریۂ ایران میں "ہفتہ حکومت" منایا جارہا ہے اس موقع پر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ان بزرگ ہستیوں کا ذکر چھیڑا جائے جنہوں نے ظلم وستم سے مقابلہ کرنے کو اپنا نصب العین بنایا تھا اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ظالم شاہی حکومت کے ظلم ستم کا شکار عوام کی خدمت کرنے کے لئے خود کو وقف کردیا اور اسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ایسی بزرگ شخصیتوں میں سابق صدر شہید محمد علی رجائي اور سابق وزیر اعظم محمد جواد باہنر بھی شامل ہیں آئیے ان دوشہیدان راہ حق کی زندگیوں پر اختصار سے نظر ڈالتے ہیں۔

عام طور سے مسند اقتدار پر براجمان اصحاب اقتدار اور عوام کے درمیان کبھی نہ پٹنے والا فاصلہ دیکھنے میں آتا ہے حکمران طبقہ ہرطرح کے وسائل و ذرائع اور مادی امکانات سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور ان ہی وسائل و ذرائع کے سہارے عوام پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف سے عوام ہر طرح سے پسماندہ اور مادی ذرائع سے بے بہرہ رہتے ہیں لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلامی حکومت کے برسرکار آنے کے بعد ایک نیا منظر سامنے آیا وہ حکومت اور عوام میں برابر کا رابطہ تھا دنیا والے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کیا حکمران طبقہ بھی یہ کہ سکتا ہے کہ اس کا تعلق عوام سے ہے، جی ہاں انقلاب اسلامی کے بعد آنے والی حکومت ایسی ہی تھی اور ہے اس حکومت میں عوام اور حکمرانوں میں کسی طرح کا فاصلہ نہیں پایا جاتا دونون ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں حکومت میں ایسے باایمان اور ماہر افراد شامل ہیں جو عوام کی خدمت کرنے کو اپنے لئے سعادت کا باعث سمجھتے ہیں اور عوام بھی دل و جان سے ان کے حامی اور پشت پناہ ہیں ۔

شہید رجائي اور شہید باہنر

سابق صدر شہید محمد علی رجائي کی حکومت اور عوام کا رابطہ ایمان و باہمی اعتماد کی اساس پر قائم تھا عوامی رابطے سے حکومت کو جواز اور قانونی حیثیت حاصل ہوتی تھی اور اسی رابطے کے تحت قوم جو معاشرے کا بنیادی ترین رکن ہے، اپنے انسانی اور برحق مطالبات و اہداف حاصل کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کرتی تھی۔ سابق صدر رجائی اور سابق وزیر اعظم باہنر پاک باز محنتی اور بے ریا افراد تھے۔ انہوں نے اسلامی نظام کی تاریخ میں اپنی صداقت اخلاص اور خدمتگزاری کی ایسی میراث چھوڑی ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گي۔

شہید رجائي اپنی محنت و خلوص سے اعلیٰ ترین عہدوں تک پنہچے تھے وہ ایک نہایت سادہ اور بے لوث انسان تھے ان کی زندگي میں کسی طرح کا مادی زرق برق دیکھنے کو نہیں ملتا ان کی سادہ زندگي، انقلاب سے پہلے ہو یا انقلاب کے بعد صدر بننے کے بعد ہو زبان زد خاص و عام تھی، جب وہ وزیر اعظم اور صدر کے عہدوں پر فائز ہوئے تو ان کی زندگي میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں آئي وہ محروموں اور پسماندہ لوگوں کے درد سے آشنا تھے اور ہمیشہ ان کی مدد کرنے کی فکر میں رہتے تھے، ان کے وجود میں انقلاب کے اہداف و مقاصد رچ بس گئے تھے، ایمان اور شجاعت ان کی ذات کا خاصہ تھا وہ ایک سنجیدہ ، ٹھوس ارادے کے حامل کبھی نہ تھکنے والے انسان تھے ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔

شہید رجائي اور شہید باہنر

شہید رجائي اسلامی انقلاب کو انبیاء کے انقلاب کا تسلسل سمجھتے تھے ان کی نظر میں اسلامی انقلاب آج انسان کی سربلندی کا باعث تھا، ان کا خیال تھا کہ اسلامی حکومت کی باگ ڈور اگر ولی فقیہ جو کہ زمانہ شناس اور مدبر ہوتا ہے رہے تو اس کو دیگر حکومتوں سے خاص امتیاز حاصل ہوجاتا ہے۔ شہید رجائي کا کہنا تھا کہ اسلامی حکومت کے تین بنیادی رکن ہیں۔ قیادت، عوام اور حکومت۔ اور یہ تینوں رکن آپس میں بہم پیوستہ ہیں اور باہمی تعاون سے محرومیت کی بیخ کنی اور ملک کی ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں اور ان کا ہدف ملک میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔

شہید رجائي اور شہید باہنر

شہید رجائي جب صدر اور وزیر اعظم تھے امام خمینی کو اپنا مرکز و محور سمجھتے تھے وہ ہمیشہ آپ کے نظریات و افکار کو مشعل ہدایت سمجھتے تھے اور ان پر عمل کیا کرتے تھے، ان کی صدارت کے دوران ان کے دوست اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر بھی عارف بیدار دل تھے وہ ایک دانشور اور فرض شناس استاد تھے انہوں نے اپنی ساری زندگي ایران کی مسلمان قوم کی خودمختاری اور سربلندی کی راہ میں گذاردی درحقیقت شہید رجائی یا باہنر ایک اسلامی حکومت کے مثالی عہدیداروں کا مکمل نمونہ تھے اور انہوں نے عملا" ایک اسلامی حکومت کا نمونہ پیش کیا۔ ان دونوں بزرگواروں نے یہ عمل کر دکھایا کہ انسان اعلیٰ ترین حکومتی منصب پر فائز رہنے کے باوجود خداپرست متواضع اور عوام کا خدمتگزار رہ سکتا ہے اور سادہ اور بے لوث زندگي گذار سکتا ہے، حضرت امام خمینی فرماتے ہیں :

"جناب باہنر اور جناب رجائي کی اہمیت اس میں ہے کہ وہ ہمارے اپنے تھے عوام سے تھے عوام کے خدمت گذار تھے مخلص اور سادگی پسند ہے۔

امام خمینی (رح) کے اس ارشاد کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ شہید رجائي اور باہنر کی حکومت اسلامی حکومت کا مظہر تھی یعی ایسی حکومت جس میں احساس برتری اور مطلق العنانی نہیں تھی وہ اقتدار کو اپنی ذمہ داری ، امانت اور عوام کی خدمت کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

دنیا کے حالات پر انقلاب اسلامی کے عظیم اثرات اور اس بات کا باعث بنے کہ دشمنون نے انقلاب اسلامی اور رجائي کی حکومت کو گرانے کے لئے آپس میں ہاتھ ملالۓ ،اس وقت کے امریکہ کے صدر نے صاف لفظوں میں کہاتھا کہ رجائي کی حکومت کوگرانا ہوگا اس کے بعد سامراج سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے بھرپور طرح سے رجائي حکومت کے خلاف پروپگینڈا کرنا شروع کیا لیکن شہید رجائي نے ان سازشوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنا اسلامی فریضہ نبھاتے رہے اس وقت شہید رجائي کا سار ہم و غم یہ تھا سیاسی سماجی اور اقتصادی لحاظ سے مناسب قوانین تیار کرکے اسلامی انقلاب کے فروغ کی ترقی اور ایران کی مسلمان قوم کی سعادت کی راہ ہموار کریں۔ خود ان کا کہنا ہے کہ جب سے انہوں نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا تھا وہ انسان کی سعادت مندی کی فکر میں تھے۔

 بہرحال شہید رجائي کی حکومت کے منصوبوں سے دنیا والوں کے سامنے انقلاب اسلامی کی واضح اور شفاف تصویر سامنے آئي اور دنیا والے یہ سمجھ گئے کہ ایران کی حکومت صحیح معنی میں عوامی حکومت ہے اور حکومت کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت جو بلاشبہ ایک عوامی حکومت ہے ،رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مناسب اقدامات کررہی ہے۔

ابنا ڈاٹ آئی آڑ


متعلقہ تحریریں:

حضرت آیت اﷲ العظمیٰ خامنہ ای " دام ظلہ " کی مختصر سوانح حیات

امام خميني(رح) کے مختصر حالات زندگی