• صارفین کی تعداد :
  • 2539
  • 2/9/2011
  • تاريخ :

امام کے بارے میں وضاحت

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۔   راہ اسلام کو جاری وساری رکھنے کے لئے امامت کا هونا ضروری ھے۔

۲۔ امامت کا انتخاب بذات خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ضروری ھے کیونکہ آپ کی ذات <لاینطق عن الهوی> کی مصداق ھے اور جب بات یھاں تک آ گئی ھے اور واضح خلاصہ بھی آپ حضرات نے ملاحظہ فرما لیا تو بات آگے بڑھ کرایک جدید مرحلہ تک پهونچتی ھے اوروہ یہ کہ ھم اس امام کی تلاش کریں جس کے بارے میں نص اور اعلان کیا گیا ھے نیز ان واضح نصوص کو بھی ملاحظہ کریں جن کے ذریعہ سے امام کی معرفت و شناخت هوتی ھے۔

اور چونکہ امامت سے متعلق روایات اور رایوں کی تعداد اس قدر زیادہ ھیں کہ اس کتاب میں ان کو بیان نھیں کیا جا سکتا اور راویوں کے بیان کرنے کا طریقہ بھی جدا جدا ھے، لیکن ھم یھاں پر فقط تین عدد شاہد پیش کرتے ھیں اور باقی تفصیل کو تفصیلی کتابوں کی طرف حوالہ دیتے ھیں۔(مثلاً الغدیر علامہ امینیۺ ، عبقات الانوار اورالمراجعات وغیرہ)

پھلی حدیث:   ” حدیث دار “

ابن جریر طبری نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ھے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر یہ آیت نازل هوئی :

<وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاٴَقْرَبِیْنَ>

”(اے رسول) تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا) سے ڈراؤ“

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خاندان عبد المطلب کو دعوت کے لئے بلایا جس میں ان کے چچا جناب ابوطالب ، جناب حمزہ، جناب عباس اور ابو لھب بھی تھے اور جب سب لوگ کھانے سے فارغ هو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیتے هوئے فرمایا:

”یا بنی عبد المطلب انی واللّٰہ ما اعلم شاباً فی العرب جاء قومہ باٴفضل ممّا قد جئتکم بہ، اٴنی قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة، وقد امرنی اللّٰہ تعالیٰ اٴن اٴدعوکم الیہ، فاٴیکم یوازرنی علی ہذا الامر علی اٴن یکون اخي ووصیي وخلیفتي فیکم؟“

(اے خاندان عبد المطلب ! خدا کی قسم،  میں عرب میں کسی ایسے شخص کو نھیں جانتا جو اپنی قوم میں مجھ سے بہتر پیغام لایا هو میں تم میں دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں ، اور خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں اس دعوت کو تمھارے سامنے پیش کردوں، پس تم میں کون شخص ھے جو اس کام میں میری مدد کرے، اور جو شخص میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ هوگا۔)

چنانچہ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام کھڑے هوئے اور کھا:

”انا یا نبي اللّٰہ اٴکون وزیرک علیہ ، فقال (ص) ان ہذا اخي ووصیي وخلیفتي فیکم، فاسمعوا لہ واطیعوا“

(یا رسول اللہ میں حاضر هوں اور میں آپ کا وزیر هوں، تب رسول اللہ نے فرمایا:

 یہ میرے بھائی، میرے وصی اور تمھارے درمیان میرے خلیفہ ھیں ان کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو) یہ سن کر سب لوگ جناب ابو طالب کو یہ کہہ کر ہنستے هوئے چلے گئے:

”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو“

 

بشکریہ صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

امامت کے عام معنی

امامت کے عام معنی ( دوسرا حصّہ)

امامت کے عام معنی ( تیسرا حصّہ)

امامت کے عام معنی (  حصّہ چهارم)

امامت کے عام معنی ( حصّہ پنجم)