• صارفین کی تعداد :
  • 2176
  • 2/19/2011
  • تاريخ :

امام کے بارے میں وضاحت (حصّہ دوّم)

بسم الله الرحمن الرحیم

”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو“

   یہ حدیث اپنے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے تین صفات کی حامل ھے:

۱۔وزیرهونا۔

۲۔وصی هونا۔

۳۔خلیفہ هونا۔

اب ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی علیہ السلام کو کس لئے یہ صفات عطا کئے اور کسی دوسرے کو ان صفات سے کیوں نھیں نوزا؟ اور کیوں آپ نے اس کام کے لئے بعثت کے بعد پھلے جلسہ کا انتخاب کیا؟

اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کام میں اپنے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی تو وزارت کافی تھی لیکن ان کے ساتھ خلافت ووصایت کا کیوں اضافہ کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں کو ڈرانے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے اور وصایت وخلافت میں کیا ربط ھے؟  ان سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ھم پر مندرجہ ذیل چیزوں کا بیان کرنا ضروری ھے:

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اس پھلے اعلان میں عہد جدید، جدید معاشرے اور نئی حکومت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ھیں۔

کیونکہ جب کوئی اھم شخصیت اپنے ہدف کو باقی رکھنا چاہتی ھے تو اس رئیس اور ایک نائب مقرر کیا جاتا ھے تاکہ اگر رئیس کو کوئی پریشانی لاحق هوجائے تو اس کے نائب کی طرف رجوع کیا جا سکے۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبھی اس ہدف کے تحت حاضرین کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ (دین و دنیا) کوئی ایسا مسئلہ نھیں ھے جو فقط مادام العمر باقی رھے اور اس کے بعد ختم هوجائے گا کیونکہ یہ ایک الٰھی رسالت ھے اور ھمیشہ باقی رہنے والی ھے اور رسول کی وفات کے بعد ختم نھیں هوگی، بلکہ جب تک زمین باقی ھے اس وقت تک یہ دین باقی ھے اورمیرے بعد بھی اس دین کا باقی رکھنے والا هوگا اور وہ یہ جوان ھے جس نے اس وقت میری مدد و وزارت کا اعلان کیا ھے یعنی حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)

اور یہ تمام باتیں مذکورہ حدیث شریف میں دقت اور غور وفکر کرنے سے واضح هوجاتی ھیں اور شاید یھی وجہ تھی کہ جس کی بنا پر امام رازی نے اس حدیث کی صحت اور سند دلالت کا اعتراف کیا لیکن خلافت کے معنی میں شک کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وفات کے بعد خلیفہ معین کرنا چاہتے تھے تو ”خلیفتي فیکم“ نہ کہتے یعنی علی تم میں میرے خلیفہ ھیں، بلکہ ”خلیفتي فیکم من بعدی“ (یعنی تم میں میرے بعد میرے خلیفہ هوں گے) کا اضافہ کرتے تاکہ واضح طور پر نص بن جائے۔

لیکن حقیقت یہ ھے کہ ھم دونوں الفاظ میں کوئی فرق نھیں پاتے، اور اگر یہ طے هو کہ ”خلفتي فیکم من بعدی“ دلالت کے اعتبار سے واضح هوتی تو پھر ”خلفیتي فیکم“ بھی اسی طرح ھے کیونکہ اس کے معنی یہ ھیں کہ اگر مجھ پر کوئی پریشانی آ جائے تو تمھارے درمیان علی (ع) خلیفہ ھیں اور اسی طرح کے الفاظ موت کے بعد خلافت پر واضح نص هوتے ھیں اور اس معنی کی تاکید لفظ ”وصی“ کرتا ھے کیونکہ اسلام میں کسی کو موت کے وقت ھی وصی بنایا جاتا ھے کیونکہ موصی کی موت کے بعد وصی اس کے کاموں پر عمل کرتا ھے۔

اور اگر کسی کام کے بارے میں موت سے قبل کہنا هو تو کھا جاتا ھے ”ہذاوکیلی“ (یہ میرا وکیل ھے)، ”وصیي“(میرا وصی) نھیں کھا جاتا کیونکہ وکالت ایک اسلامی تعبیر ھے جو اس شخص کے لئے کھی جاتی ھے جو انسان کی قید حیات میں اس کی نیابت میں کسی کام کو انجام دے۔

لہٰذا اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روز اول ھی واضح بیان فرمایا کہ کون میرے بعد میرا خلیفہ هوگا اور کون مسلمانوں میں میرا وصی هوگا تاکہ کشتی اسلام  میری وفات کے بعد امواج زمانہ کی نذر نہ هوجائے۔

اور یہ اسلام کا آغازجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس محدود مجمع میں اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ھمیشہ اس پر تاکید فرماتے رھے یھاں تک کہ آخری عمر میں بھی (غدیر خم میں) اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔

 

بشکریہ صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

امامت کے عام معنی (حصّہ هشتم)

امامت کے عام معنی (حصّہ هفتم)

امامت کے عام معنی (حصّہ ششم)

امامت کے عام معنی ( حصّہ پنجم)

امامت کے عام معنی (  حصّہ چهارم)