• صارفین کی تعداد :
  • 2312
  • 3/5/2011
  • تاريخ :

امام کے بارے میں وضاحت (حصّہ چهارم)

بسم الله الرحمن الرحیم

تیسری حدیث: ”حدیث غدیر“

حدیث غدیر کو اکثر صحابہ وتابعین نے روایت کیا ھے اور بہت سے علماء وحفاظ نے اس کو نقل کیا ھے۔

بطور اختصارھم صرف حدیث کے محل شاہد اور ان چیزوں کو بیان کرتے ھیں جو امامت وامام کی وضاحت سے متعلق ھیں۔

چنانچہ اکثر روای کہتے ھیں:

”جب ھم حجة الوداع سے واپس پلٹ رھے تھے ، اورغدیر خم میں پهونچے تو رسول اسلام نے نماز ظھر کے بعد مسلمانوں کے درمیان خطبہ دیا اورحمد باری تعالیٰ کے بعد فرمایا:

”اے لوگو  ! قریب ھے کہ میں اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کهوں میں بھی مسئول هوں او رتم بھی مسئول هو، پس تم لوگ کیا کہتے هو؟

تب لوگوں نے کھا:  ”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کی، ھم کو وعظ ونصیحت کی اورجھاد کیا ، ”فجزاک اللّٰہ خیراً“

یھاں تک کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”ان اللّٰہ مولای واٴنا مولی الموٴمنین ، وانا اولی بھم من انفسھم، فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ، اللّٰھمّ وال من والاہ وعاد من عاداہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ واٴدر الحق معہ حیثما دار۔“

(اللہ میرا مولا ھے اورمیں مومنین کا مولا هوں اور میں ان کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف هوں پس جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی بھی مولا ھیں، خدایا تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے، خدا یا تو اس کی نصرت فرما جو علی کی نصرت کرے، اور اس کو ذلیل کر دے جو علی کو ذلیل کرنا چاھے اور جدھر علی جائیں حق کو ان کے ساتھ موڑ دے)

اور جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا یہ کلام تمام هوا تو سب لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف مبارکباد دینے کے لئے بڑھے، چنانچہ حضرت عمر نے کھا:

”بخ بخ لک یا علی، اصبحت مولانا ومولی کل مومن ومومنة“

(مبارک هو مبارک اے علی، آپ ھمارے اورھر مومن ومومنہ کے مولا هوگئے)

اس کے بعد جناب جبرئیل یہ آیت لے کر نازل هوئے:

<اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاٰمَ دِیْناً>

”آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کر دیں اور تمھارے اس دین اسلام کو پسند کیا“

 یہ تھا حدیث غدیر کا خلاصہ، اور یہ تھی شان نزول اور یہ تھے الفاظ حدیث، اس حدیث شریف میں نظریہ ”امامت“ کی مکمل وضاحت کی گئی ھے اور یہ واضح کردیا گیا ھے کہ یہ امامت ، ولایت عام اور مطلقہ مسئولیت کی حامل ھے اور سول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد جس امام کے بارے میں سوال کیا جا رھا تھا اس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور اس حدیث ودلیل کو سن کر لوگوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا جس کے نتیجہ میں تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے لگے۔

لیکن بعض لوگوں نے فلسفہ چھاڑنا شروع کیا درحالیکہ وہ حدیث کی صحت کا انکار نہ کرسکے بلکہ یہ کھا کہ یہ حدیث آپ کے مدعا کو ثابت نھیں کرتی چونکہ لغت میں لفظ” مولا“ کے بہت سے معنی ھیں جیسے ناصر، ابن عم، رفیق، وراث وغیرہ اور ھم یہ نھیں جانتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد کون سے معنی تھے اور کس معنی میں حضرت علی علیہ السلام کو مولا کھا ھے۔

بشکریہ صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

امامت کے عام معنی (حصّہ دهم)

امامت کے عام معنی (حصّہ نهم)

امامت کے عام معنی (حصّہ هشتم)

امامت کے عام معنی (حصّہ هفتم)

امامت کے عام معنی (حصّہ ششم)