• صارفین کی تعداد :
  • 2957
  • 5/3/2011
  • تاريخ :

سورۂ یوسف ( ع) کی آيت نمبر 84 ۔ 80 کی تفسیر

قرآن حکیم

خدا کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی آل اطہر پر درود و سلام کے ساتھ الہی تعلیمات پر مشتمل " پیام قرآن " میں ہم اپنی یہ آسان و عام فہم سلسلہ وار تفسیر سورۂ یوسف (ع) کی آیت اسی سے شروع کر رہے ہیں، خدا فرماتا ہے : فلمّا استائسوا منہ خلصوا نجیّا" قال کبیرہم الم تعلموا انّ ابا کم قد اخذ علیکم مّوثقا" مّن اللہ و من قبل مافرّطتّم فی یوسف فلن ابرح الارض حتّی یاذن لی ابی اویحکم اللہ لی و ہو خیر الحاکمین پس جب وہ سب ( برادران یوسف ع ) بنیامین کے سلسلے میں مایوس ہوگئے تو الگ ہٹ کر (آپس میں) صلاح و مشورہ کرنے لگے ( کہ اب کیا کیا جائے ) ان کے سب سے بڑے (بھائي ) نے کہا : کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سب سے خدا کو درمیان میں رکھ کر عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم لوگ یوسف کے سلسلے میں لاپروائی دکھا چکے ہو لہذا میں تو اس سرزمین سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ خود میرے باپ اس کی اجازت نہ دیں یا میرے حق میں میرا خدا کوئی فیصلہ کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔عزيزان محترم ! بنیامین کے سامان سے شاہی پیمانہ برآمد ہوجانے اور ان کے بھائیوں کی جانب سے ان کی یہ درخواست کہ بنیامین کے بجائے ان کے کسی اور بھائی کو عزیز مصر اپنے اختیار میں لے لیں ، مسترد ہوجانے کے بعد گویا وہ لوگ ادھر سے مایوس ہوگئے کہ اب بنیامین کو واپس لے جانا ممکن نہیں ہے مگر سوال یہ تھا کہ اس صورت میں واپس ہوئے تو باپ کا سامنا کیسے کریں گے اور ان سے کیا کہیں گے ؟ چنانچہ آیت کے مطابق : اسی سلسلے میں یوسف (ع) کے تمام بھائیوں نے الگ بیٹھ کر صلاح و مشورہ کیا اس موقع پر ان کے سب سے بڑے بھائی نے کہا میں تو اس طرح بنیامین کو چھوڑ کر اس سرزمین سے واپس نہیں جاؤں گا مگر یہ کہ خود میرے والد تمام قضیے کی تحقیق کے بعد مجھے بے قصور قرار دے کر اپنے پاس واپس آنے کی اجازت دیدیں ظاہر ہے تم سب کو معلوم ہے کہ باپ کے سامنے کیا عہد کیا تھا کہ کسی بھی قیمت پر بنیامین کو ان کے پاس واپس لے کر آئیں گے ۔ خدا کو حاضر و ناظر قرار دے کر قسم کھائی تھی اب کیسے ان کا سامنا کریں گے ۔ تم لوگ جاؤ اللہ میرا فیصلہ کرے گا اس کا مطلب شاید یہ ہو کہ اللہ نے چاہا تو عزيز مصر کو رحم آجائے گا اور وہ بنیامین کو چھوڑدے گا یا پھر اتنی قوت دے گا کہ میں تلوار کے ذریعے چھڑا کر انہیں واپس لاسکوں ۔ اور اب سورۂ یوسف ( ع ) کی آیات اکیاسی اور بیاسی ، ارشاد ہوتا ہے : ارجعوا الی ابیکم فقولوا یا ابانا انّ ابنک سرق و ما شہدنا الّا بما علمنا و ما کنّا للغیب حافظین و سئل القریۃ الّتی کنّا فیہا و العیر التی اقبلنا فیہا و انّا لصادقون تم لوگ اپنے باپ کے پاس لوٹ جاؤ اور ان سے کہنا :

بابا ! یقینا" آپ کے بیٹے نے چوری کی اور ہم نے سوائے اس چیز کے کہ جس سے ہم آگاہ تھے گواہی نہیں دی اور ہم لوگ غیب کی باتوں سے واقف نہیں ہیں ( اور اگر ہماری بات پر اطمینان نہ ہو تو ) جس قریہ میں ہم تھے اور جس کارواں کے ساتھ ہم سفر سے واپس آئے ہیں پوچھ لیجئے تا کہ معلوم ہوجائے کہ ہم اپنی باتوں میں سچے ہیں ۔

 عزیزان محترم ! سلسلۂ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بڑے بھائی نے اپنے دوسرے بھائیوں سے کہا میں تو نہیں جاؤں گا کیونکہ مجھ میں باپ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ہے ہاں تم لوگ جاؤ اور باپ سے کہدینا کہ آپ کے لاڈلے بیٹے نے چوری کی اور عزيز مصر نے ہمارے ہی قانون کے تحت ان کو پکڑلیا ہے ہم نے ہی چور کی سزا یہ بتائی تھی کہ ہمارے یہاں چور کو چوری کے بدلے پکڑلیا جاتا ہے اور یہ سزا ہم نے اپنے علم کے تحت بیان کی تھی ہمیں کیا پتہ تھا کہ چوری کا مال بنیامین کے سامان میں نکل آئے گا اور انہیں ہم کو ذلت کے ساتھ چھوڑنا پڑے گا ظاہر ہے ہم کو غیب کی باتوں کا علم نہیں ہے ۔اگر آج ہمارے ساتھ بنیامین واپس نہیں آئے ہیں تو یہ ہماری کسی بدنیتی کا نتیجہ نہیں ہے ہماری بات پر اگر آپ کو شک ہے تو وہاں موجود اہل قریہ سے یا پھر قافلہ میں واپس آنے والے دوسرے لوگوں سے آپ اس سلسلے میں تحقیق کرسکتے ہیں ۔ہمارے بڑے بھائی نے بھی آپ سے کئے گئے الہی عہد کے سبب بنیامین کے بغیر آپ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ پا کر عہد کیا ہے کہ جب تک آپ خود ان سے نہ کہیں گے وہ یہاں واپس نہیں آئیں گے وہ کوشش میں ہیں کہ کسی طرح عزيز مصر کو بنیامین کے رہا کرنے پر راضی کرلیں چنانچہ ان لوگوں کی باتیں کسی حد تک صحیح تھیں لیکن یعقوب علیہ السلام کے لئے بہرحال ناقابل یقین تھیں کیونکہ وہ حضرت یوسف (ع) کے سلسلے میں ان لوگوں کی خیانت اور لاپروائی دیکھ چکے تھے اس لئے باپ کی حیثیت سے وہ یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ شاید انہوں نے بنیامین کو مجھ سے الگ کرنےکے لئے کوئی منصوبہ بنایا ہے ۔ چنانچہ سورۂ یوسف (ع ) کی آیات تراسی اور چوراسی کے مطابق حضرت یعقوب (ع) نے بیٹوں کی باتیں سن کر قال : بل سوّلت لکم انفسکم امرا" فصبر جمیل عسی اللہ ان یّاتینی بہم جمیعا" انّہ ہو العلیم الحکیم و تولّی عنہم و قال یا اسنی علی یوسف و ابیضّت عیناہ من الحزن فہو کظیم ۔ کہا : ( یہ سب نہیں ہے ) بلکہ تم لوگوں نے دل سے ایک نئی بات گڑھ لی ہے لہذا ( میرے لئے ) صبر جمیل ہی لازم ہے میری دعا ہے کہ خدا ان سب کو میرے پاس واپس لائے یقینا" وہ بڑا ہی جاننے اور حکمت سے کام لینے والا ہے اور ( یہ کہکر ) ان تمام ( بیٹوں ) کی طرف سے منہ پھیرلیا اور کہا : ہائے یوسف ( کی جدائی ) کس قدر افسوسناک ہے اور ان کی آنکھیں ( رونے کے باعث ) سفید ہوگئیں پھر بھی غم کے گھونٹ پی کر رہ گئے ۔

عزیزان محترم ! بیٹوں کے منہ سے بنیامین کے خلاف چوری کا الزام سننے کے بعد جناب یعقوب (ع) کو سخت تکلیف پہنچی تھی اور ( بظاہر ) جناب یعقوب (ع) چونکہ بنیامین کی صحیح صورتحال سے بے خبر تھے اس لئے انہوں نے محسوس کیا کہ اس دفعہ بھی ان لوگوں نے بنیامین کو مجھ سے الگ کرنے کا کوئی اچھا سا منصوبہ بنالیا ہے لہذا صبر سے کام لینا ہی بہتر ہے اس لئے ان سب کی واپسی کی امید و توقع ظاہر کرتے ہوئے کہ خدا میرے تمام بچوں کو میرے پاس واپس لائے اور وعدہ کے مطابق آل یعقوب (ع) پر اپنی نعمتیں تمام کردے سامنے کھڑے بیٹوں کی طرف سے منہ پھیر لیا ، بنیامین کی جدائي کے غم نے گویا یوسف (ع) کی جدائی کے غم کو پھر سے تازہ کردیا تھا لہذا غم و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اتنا روئے کہ آنکھوں کی سیاہی سرخی اور پھر سفیدی میں تبدیل ہوگئی اور غم کو اپنے سینے میں دبا لیا ۔صبر کے ساتھ گریہ انبیاؤ اولیاء کا شعار ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ رونے والا خدا سے شکوہ نہیں کرتا غم کو دور کرنے کی دعا کرتا ہے یعقوب علیہ السلام نے ، جیسا کہ خدا سے بیٹوں کی واپسی کی امید کے ساتھ یوسف (ع) کی جدائی کے غم میں گریہ و زاری سے کام لیا ہے اور آہ و حسرت کے دائرے میں خود کو صبر و تحمل کی تلقین کی ہے ، بیٹوں کی مذمت بھی شک و شبہ کے دائرے میں ہے یقین کے ساتھ تہمت و الزام کی حدوں میں نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنے غم کو سینے میں دبا کر بیٹوں کی جدائي کے صبر آزما دور سے گزرنا اپنا شعار قرار دیا ہے جو یقینا" مؤمنین کے لئے سبق آموز ہے ۔

اور اب زير بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ : 

جس وقت انسان مسند انصاف پر بیٹھا ہو لوگوں کی التجا ، رحم کی درخواست حتی عزیز و اقارب اور بھائي بیٹوں کی سفارش بھی قوانین پر عمل درآمد ہیں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے فیصلہ کن انداز میں حاکم اور قاضی کو قانون نافذ کرنا چاہئے ۔

عہد و پیمان لے کر حکومت کے ذمہ دار افراد اپنے ماتحتوں کے جذبۂ عمل کو مہمیزکر سکتے ہیں ظاہر ہے فرائض کی ادائگی نظام کے بقاؤ تحفظ کی ضمانت ہے ۔

ملزموں کے سلسلے میں جرم و گناہ کا فیصلہ صادر کرنے میں جلد بازي سے کام لینا صحیح نہیں ہے ۔گواہ اور دلیل و ثبوت کی جستجو ضروری ہے ، حضرت یوسف (ع) کے بڑے بھائی نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ یوسف (ع) کے سامان سے چوری کا مال نکلا ہے اس حدتک ہم انہیں چور کہہ رہے ہیں مگر حقیقت کیا ہے ۔ہمیں اس کی خبر نہیں ہے ۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ انسان کی پچھلی زندگی جھوٹ اور بد دیانتی، انسان کو شکوک و شبہ میں ڈال دیتی ہے لہذا کوشش کرنا چاہئے کہ " سابقہ " خراب و سیاہ نہ ہونے پائے ۔

مؤمن سختیوں میں صبر و تحمل سے کام لیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ زندگی کے مصائب و مشکلات الہی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہیں خدا بہرحال اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ بھی ہے اور قدرت و تدبیر والا بھی ہے ۔

عزیز و اقارب کی جدائي میں گریہ ؤ زاری ایک فطری تقاضا ہے ، انبیاء  و اولیاء کی سیرت میں بھی گریۂ شدید کا ذکر موجود ہے اور حضرت آدم کا فراق حوا میں اور یعقوب (ع) کا فراق یوسف (ع) میں آنسو بہانا ضرب المثل ہے مگر کسی مرحلے میں خدا سے شکوہ اور جسارت ، اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے

بشکریہ آئی آر آئی بی


متعلقہ تحریریں:

سورۂ یوسف ( ع) کی آيت نمبر 76 کی تفسیر

سورۂ یوسف کی آیت نمبر 70 کی تفسیر

سورۂ یوسف کی آیت نمبر 69 کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 68 ویں آیت کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 67 ویں آیت کی تفسیر