• صارفین کی تعداد :
  • 3247
  • 5/15/2011
  • تاريخ :

سورۂ یوسف (ع) کی آيت نمبر  87 ۔ 85 کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم مرسل اعظم (ص) اور ان کے اہلبیت مکرم (ع) پر درود و سلام کے ساتھ الہی تعلیمات پر مشتمل پیام قرآن میں ہم اپنی یہ آسان و عام فہم سلسلہ وار تفسیر سورۂ یوسف کی آیات پچاسی اور چھیاسی کی تلاوت اور ترجمہ و تشریح سے شروع کررہے ہیں امید ہے توجہ سے نوازیں گے ۔ خداوند عالم حضرت یوسف (ع) اور ان کے بھائی بنیامین کے فراق میں غمگین یعقوب (ع) کے ساتھ بیٹوں کی گفتگو اور اس کا جواب نقل کرتے ہوئے کہتاہے : قالوا تاللہ تفتؤا تذکر یوسف حتّی تکون حرضا" او تکون من الہالکینقال انّما اشکوا بثّی و حزنی الی اللہ و اعلم من اللہ مالا تعلمون ( یوسف ع کے بھائیوں نے اپنے باپ کی باتیں سن کر ) کہا : خدا کی قسم ! آپ اتنا زیادہ یوسف (ع) کو یاد کیا کرتے ہیں کہ ( لگتا ہے ) بیمار و لاغر ہوکر آپ اپنی جان دیدیں گے ۔ یعقوب (ع) نے کہا : میں اپنے آشکارا و پنہاں رنج و محن کی فریاد ( تم لوگوں سے نہیں ) صرف اللہ کی بارگاہ میں کر رہا ہوں اور اپنے خدا کی طرف سے وہ سب جانتا ہوں جو تم لوگ نہیں جانتے ۔ چوری کے الزام میں بنیامین کا مصر میں ہی روک لیا جانا اور بیٹوں کی زبانی اس داستان کا حضرت یعقوب (ع) کے سامنے دہرایا جانا جبکہ باپ کو اپنے بیٹے کے چور نہ ہونے کا یقین ہو باپ کے لئے کتنا سخت ہوگا اس کو سبھی محسوس کرسکتے ہیں چنانچہ بنیامین کی جدائي نے حضرت یوسف (ع) کی جدائي کا داغ بھی تازہ کردیا اور باپ نے اتنا اثر لیا کہ قرآن کے الفاظ میں رونے سے آنکھیں سفید ہوگئیں اور بینائی جاتی رہی بیٹوں کے دل باپ کی بیتابی پر ہمدردی میں کڑھے ہوں یا پھر ممکن ہے حسد کی آگ شعلہ ور ہوئی ہو اور انہوں نے جلے کٹے انداز میں باپ پر اعتراض کیا ہو کہ آپ یوسف (ع) کو یاد کرکے اتنا زیادہ رویا کرتے ہیں جیسے ہم آپ کے لئے کوئی حیثیت ہی نہ رکھتے ہوں ؛ خود کو روروکر اتنا کمزور و لاغر کرلیا ہے کہ گویا یوسف (ع) کے غم میں ہی جان دیدیں گے !!

ظاہر ہے جن دلوں میں کینہ و حسد پروان چڑھے فضل و شرف نظر نہیں آتے یوسف (ع) کے غم میں یعقوب (ع) کی فریاد ان کے مقام و مرتبے کے تحت تھی اور ان کے عشق کا محور یوسف (ع) کا کردار تھا ورنہ اگر پدرانہ محبت بنیاد ہوتی تو بجائے یوسف (ع) کے وہ بنیامین کا نام لے کر فریاد کرتے جن کی جدائی تازہ تھی ، البتہ آیت سے پتہ چلتا ہے کہ بنیامین کی جدائی نے یوسف (ع) کا غم تازہ کردیا تھا اور یعقوب (ع) کی بیتابی میں اس نئی جدائي نے پرانے غم کو اور زیادہ کریددیا تھا ۔ چنانچہ بیٹوں کے جواب میں یعقوب (ع) نے کہ دیا : میرا رنج و محن میری چیخ و فریاد اور میرا خاموش درد و کرب سب کچھ کسی اور سے نہیں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اپنے احساسات کے اظہار کے لئے ہے ورنہ انہیں الہی علم کے تحت مجمل طور پر پتہ تھا کہ ان کا بیٹا یوسف (ع) زندہ ہے اور اللہ نے اس کو ایک بلند مقام پر فائز کرنے کا وعدہ کیا ہے اور غالبا" اس کا بھی اندازہ تھا کہ بنیامین کے ساتھ کیا کچھ پیش آیا ہے وہ کس حال میں ہیں اسی لئے انہوں نے کہا ہے : " مجھے خدا نے ان باتوں کا علم دیا ہے کہ جن کے بارے میں تم لوگوں کو کچھ معلوم نہیں ہے ۔" چنانچہ یعقوب (ع) کا گریہ اور فریاد یوسف (ع) کے فراق میں تھا اور وہ ایک فطری عمل تھا جس پر کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا ۔انبیاء (ع) کا شکوہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی محرومی پر ہوتا ہے اللہ کے عدل و انصاف کے خلاف وہ فریاد نہیں کرتے جیسا کہ حضرت موسیٰ (ع) نے اپنے فقر و غربت اور حضرت ایوب (ع) نے اپنی بیماری اور مصیبت و پریشانی پر شکوہ کیا ہے مگر اللہ کے فیصلے پر وہ سب راضي تھے کیونکہ ان کی نظر میں عطا و بخشش اللہ کا لطف و انعام ہے اور کسی چیز سے محرومی و دوری اللہ کی حکمت و مصلحت ہے البتہ خدا کے فیصلے پر رضا و رغبت کے ساتھ مشکلات سے رہائی کے لئے دعا اور نالہ و فریاد انبیاء علیہم السلام کی سیرت ہے اور ہمارے اس مطلب کی تائید اگلی آیت (ستاسی ) سے واضح طور پر ہوتی ہے جس میں حضرت یعقوب (ع) اپنے بیٹوں سے فرماتے ہیں :

یا بنیّ اذہبوا فتحسّسوا من یوسف و اخیہ و لا تایسوا من رّوح اللہ انّہ لا یائس من رّوح اللہ الّا القوم الکافرون ۔  اے میرے بچو ! جاؤ اور یوسف (ع) اور ان کے بھائی کی جستجو کرو ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو یقینا" کافروں کے سوا ، کوئی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا ۔

 اگر حضرت یعقوب (ع) کو اپنے یوسف (ع) کے زندہ ہونے اور مصر میں بلند مرتبے پر فائز ہونے کا اجمالی علم نہ ہوتا تو وہ کبھی اپنے بیٹوں سے نہ کہتے کہ ( مصر کی طرف ) جاؤ اور اپنے بھائی یوسف (ع) اور ان کے بھائي بنیامین کی جستجو کرو شاید وہ مل جائیں خدا کی رحمت سے، جوہر مشقت کے بعد نصیب ہوتی ہے، مایوس نہ ہو تم لوگ کافر نہیں ہو کہ اس کی رحمت سے مایوس ہوئے جارہے ہو اور بھول گئے ہو کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے مؤمن و دیندار افراد الہی رحمت سے مدد حاصل کرتے ہیں اور اپنی جد وجہد جاری رکھتے ہیں ، میرا گریہ نہ عقل کی کمزوری ہے نہ بدن کی موت کا پیغام ہے صرف اپنے پروردگار کی بارگاہ میں مشکلات برطرف کرنے کی ایک التجا اور فریاد ہے تم لوگ میری زندگی کی طرف سے بے پروا ہوکر جاؤ اور مصر میں یوسف (ع) اور ان کے بھائی کو تلاش کرکے میرے پاس واپس لانے کی جستجو کرو میں ، تم سب بھائیوں کو ، یوسف، بنیامین اور ( بڑے بھائی ) روبین یا شمعون سمیت ، یہاں اکٹھا دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اس آیت میں ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ رحمت الہی کو " روح اللہ " سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح نسیم تازہ کے جھونکے جان و روح کو تازگی عطا کرتے ہیں اللہ کی رحمت بھی انسانی وجود میں نئی حیات پھونک دیتی ہے ۔سورۂ " الحجر " کی 56 ویں آیت میں بھی یہ بات حضرت ابراہیم (ع) کی زبانی دوسرے انداز سے کہی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے : " و من یّقنط من رّحمت ربّہ الّا الضّالّون " یعنی گمراہ لوگ ہی خدا کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں ۔اہل ایمان مشکلات اور پریشانیوں میں صبر و رضا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے گویا ، انبیاء و اولیا اور مخلصین کا گریہ ، خدا کی رحمت سے مایوسی کی دلیل نہیں ہے بلکہ رحمت خدا پر یقین کی دلیل ہے ۔

اور اب زير بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

حضرت یعقوب (ع) اپنے فرزند حضرت یوسف (ع) سے محبت بھی کرتے تھے اور ان کی شخصیت کی معرفت بھی رکھتے تھے ۔ اسی لئے ان کے فراق میں بیتاب رہتے تھے اور ان کا نام لے کر یاد کیا کرتے تھے ۔ فراق محبوب انسان کو تڑپاتا بھی ہے اور زندگی کا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے مگر اس صورت میں کہ خدا کی رحمت پر یقین ہو ، عشق حقیقی صرف رشتوں کی بنیاد پر نہیں انسانی کمالات پر استوار ہوتا ہے ، مؤمن حسن و جمال سے زیادہ کمالات سے عشق کرتا ہے ۔ مشکلوں اور مصیبتوں پر لوگوں سے شکوہ و شکایت مذموم ہے لیکن مشکلوں سے نجات کے لئے جد وجہد اور اپنے خدا کی بارگاہ میں نالہ و فریاد انبیاء (ع) کی سیرت ہے اور ممدوح ہے ۔ خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے مستقبل کی طرف سے امیدیں وابستہ رکھنا خدا کے اولیا کا طریقہ رہا ہے ۔ اللہ کی رحمتوں سے استفادہ کے لئے جد وجہد اور تلاش و جستجو ضروری ہے ، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر میں بیٹھ رہنے سے زندگی کی مشکلیں دور نہیں ہوتیں ، خدا پر توکل کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے ورنہ یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو حضرت یوسف (ع) اور ان کے بھائي کی جستجو کا حکم نہ دیتے ۔ جو لوگ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے یا دوسروں کو مایوس کرتے ہیں گویا وہ اپنے کفر کا ثبوت دیتے ہیں ۔

بشکریہ آئی آر آئی بی


متعلقہ تحریریں:

سورۂ یوسف ( ع) کی آيت نمبر 77 کی تفسیر

سورۂ یوسف ( ع) کی آيت نمبر 76 کی تفسیر

سورۂ یوسف کی آیت نمبر 70 کی تفسیر

سورۂ یوسف کی آیت نمبر 69 کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 68 ویں آیت کی تفسیر