• صارفین کی تعداد :
  • 3609
  • 7/19/2011
  • تاريخ :

ظلم بالائے ظلم جرم بالائے جرم

امام حسن عسکری علیہ السلام

سامراجی دہشت گردوں نے ایک بار پھر سامرہ میں مشاہد مقدسہ کی بے حرمتی کے ذریعہ محمد و آل محمد علیہم السلام کے صبر وتحمل کا امتحان لیا ہے سامرہ میں خاندان رسالت و امامت کے دو امام معصوم حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن عسکری علیہما السلام کے حرم مطہر میں تشدد آمیز دھماکوں نے ایک بار پھر عالم اسلام خصوصا" شیعی دنیا کے قلوب سینوں میں ہلادئے ہیں ۔

یہ وہ ظلم بالائے ظلم اور جرم بالائے جرم ہے جو عالم اسلام خصوصا" عراق کےشیعہ اور سنی تمام مسلمانوں کے مشترکہ دشمن امریکہ اور اس کے انتہا پسند بعثی آلہ کاروں نے نہایت ہی گھناؤ نے اہداف و مقاصد کے تحت انجام دئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح اہلبیت عصمت و طہارت (ع) سے و الہانہ عشق و ارادت رکھنے والے شیعوں کے جذبات و احساسات مشتعل کرکے عراق میں ایک ناقابل کنٹرول اندرونی جنگ شروع کردیں اور عراق کی موجودہ فضا کو اور زیادہ خونبار بناکر اس ملک میں اپنے سامراجی وجود کو باقی رکھنے کے لئے ایک موذیانہ دلیل اور بہانہ قراردیں اس سازش کا اصل نشانہ وہ مذہبی علماؤ قائدین ہیں جنہوں نے گزشتہ چار برسوں سے عراق کے شیعوں اور سنیوں کو کسی بھی عنوان سے انتہا پسندی کا شکار ہوئے بغیر اسلامی بنیادوں پر امن و آشتی کی برقراری اوربیرونی افواج سے ملک کو خالی کرانے کی خاطر ہمیشہ اسلامی اتحاد و یکجہتی کی نصیحت و تلقین کی ہے اور کر رہے ہیں ۔  جب ان ہی عناصر نے عراق کی اس مقدس زیارت گاہ سامرہ میں نہایت ہی بے شرمی کے ساتھ بم دھماکوں کے ذریعے امامین عسکریین علیہما السلام کے روضوں کا طلائي گنبد تباہ کردیا تھا اور خاندان رسول (ص) سے عقیدت رکھنے والے لاکھوں مسلمانوں کے قلوب ، مشاہد مقدسہ کی بے حرمتی کے سبب سخت مجروح ہوئے تھے اور قریب تھا کہ عراق میں تعصب اور بد گمانیوں کے تحت مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان کشت و خون کا دریا بہہ جائے کہ فوری طور پر عراق میں عالم تشیع کے ایک مرجع بزرگ آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی دام ظلہ نے اور ان کی تائيد کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ نے بڑی ہی سختی کے ساتھ تمام شیعوں اور سنیوں کو صبر وتحمل اور اسلامی اتحاد و یکجہتی باقی رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے دونوں کے درمیان منافرت پھیلانے سے متعلق اس عظیم المیے کے پس پردہ سامراجی سازشوں کا انکشاف کیا تھا اوراس دوران ، یکے بعد دیگرے مشرق وسطیٰ خصوصا" عراق ، فلسطین اورلبنان میں رونما ہونے والے بہت سے حادثات میں امریکہ اسرائيل اور ان دونوں کے آلہ کار سامراجی ایجنٹوں کے ذریعے شیعوں اور سنیوں میں باہمی شگاف پیدا کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی دنیا کی تمام بڑی مذہبی قیادتوں نے عراق کے روحانی قائد آیت اللہ سیستانی اوررہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی آوازوں پر لبیک کہی ہے ۔

اگرچہ سامرہ کی مانند تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنوں اور غیروں ہرایک نے اپنے اپنے انداز میں گفتگو کی ہے اورامریکہ ،اسرائیل ، القاعدہ ،عراق کے باقی ماندہ بعثی افلقی اور اہلسنت کے سلفی گروہوں ، بعض عرب پڑوسی ملکوں ،اور مذکورہ تمام یا بعض عناصر کے باہمی اتحادیوں کواصل مجرم ٹہرانے کی کوشش کی ہے اور اپنے دعووں کے حق میں دلیلیں اور احتمالات پیش کئے ہیں لیکن شکوک و شبہات اور بد گمانیوں اور نفرتوں کی اس فضا کو صاف کرنے اور سامرہ کے دردناک المیے کے مجرم یا مجرموں کو پہچان کر ان کے ہتھکنڈوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے کہ اب سامرہ جیسے کسی اور خوں چکاں حادثے سے کس طرح محفوظ رہا جائے ،بعض حقائق پرتوجہ ضروری ہے ۔

عراق کا مقدس شہر سامرہ ، بغداد سے تقریبا" ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں مجموعی طور پر پوری آبادی ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے جو سب کے سب اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں اور پچھلے پچاس مہینوں سے امریکی افواج کے سخت کنٹرول اورقبضے میں ہیں ، چونکہ یہ شہر بعثیوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے عراق پر قابض امریکی افواج تین چار برسوں سے امن برقرار رکھنے کے نام پر اس علاقے کو اپنے سخت کنٹرول میں لئے ہوئے ہیں حتی بیرونی زائروں کو بھی سامرہ کی زیارت سے محروم کردیا گیا ہے چنانچہ بین الاقوامی پروٹوکول کےتحت عراق میں اگر کہیں بھی کوئی ناخوشگوار خونی المیہ پیش آئے تو اس ملک پر قابض امریکی اوربرطانوی فوج کی ذمہ داری سے قطع نظر ، سامرہ کا علاقہ توپوری طرح امریکی افواج کے کنٹرول میں ہے اور بغیر کسی منصوبہ بند سازش یا کم از کم امریکی تعاون اور چشم پوشی کے ، سامرہ میں اس طرح کی المناک دہشت گردانہ کارروائی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

علاوہ ازیں باخبر ذرائع کے مطابق حرم مطہر میں دہشت گرد عناصر کے پہنچنے ، خدام کے ہاتھ پاؤں باندھے جانے ، اور حرم مطہر کے دونوں مناروں اور سرداب امام مہدی علیہ السلام میں بدھ کو صبح نو بجے کے قریب رونما ہونے والے جانسوز دھماکوں کے درمیان پورے چھ گھنٹے کا وقفہ بتایا جاتا ہے چنانچہ اس دوران دہشت گرد عناصر ، جو بھی رہے ہوں آسودہ خاطر ہوکر اپنے تمام تخریبی کام انجام دیتے رہے اور عراق کی منتخب مالکی حکومت کی حفاظتی کوشش اور سامرہ میں پہلے سے موجود محافظ دستوں کے ساتھ ان کی جھڑپ ارو تیس چالیس افراد کی شہادت کے باوجود امریکی افواج کی بے پروائی بتاتی ہے کہ اس وحشتناک غیر انسانی کارروائي میں پوری طرح عراق پر قابض فوجیں ملوث ہیں جیسا کہ 16 مہینے قبل بھی اس حرم مطہر کا طلائی گنبد ویران کرنے میں ان ہی دہشت گردوں کا ہاتھ رہا ہے یہ دہشت گردوں کا ایک خاص گروہ ہے جو عراق پر قابض ممالک کی افواج ،عراق میں باقی ماندہ بعثی عناصر اورکچھ سلفی گروہوں کے بے دین زرخریدوں پر مشتمل ہے اس شرمناک تکون کا اصل مقصد عراق کی منتخب حکومت پر ایک کاری ضرب لگا کر خاص طور سے عراق کے شیعوں کو مذہبی قیادت اور آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کی مدبرانہ ہدایت و رہبری کی طرف سے مایوس و بدگمان کرنا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح کے واقعات سے شیعہ بے قابو ہوجائيں گے اور وہ کوئی ایسا جوابی اقدام کربیٹھیں گے کہ عراق میں ایک طویل شیعہ سنی جنگ چھڑجائے گي اور کم از کم اہلسنت کا شیعہ مرجع کی قیادت سے اعتماد اٹھ جائے گا انارکزم کے ماحول میں نوری مالکی کی حکومت کو گراکر ایاد علاوی کی مانند کس امریکی زلہ خوار کے ذریعہ عراق میں بھی ترکی کی طرح کا مذہب دشمن " شیعہ لائیک نظام " قائم کرنے کا موقع مل جائے گا جو صدام کے "سنی بعثی نظام " کی طرح امریکہ کے اشاروں پر سامراجی مفادات کےلئے کام کرے گا ۔

البتہ اس شرمناک تکون کو معلوم نہیں ہے کہ اب عراق میں کوئي بھی الحادی نظام رائج کرنا ہرگز ممکن نہیں ہے آج اسلامی حاکمیت کے طرفدار عوام چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی پہلے سے کہیں زیادہ متحد اور منظم ہوچکے ہیں اور اس طرح کے شرمناک حادثے ان کے ایمانی جذبوں کو اور زیادہ قوت و استحکام عطا کریں گے ۔

اسی لئے عراق کے شیعہ اور سنی متحدہ محادوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جس طرح نجف کربلا اور کاظمین میں مقدس شہروں کی حفاظت و نگہبانی اورامن و آسائش کی بحالی مذہبی قیادت اور حکومت کی مشترکہ فورسز کے کنٹرول میں ہے سامرہ میں بھی عراق پر قابض بیرونی افواج کا تسلط اور حفاظت کی ذمہ داری ختم کرکے اس مقدس شہر کا انتظام و انصرام مذہبی قیادت و حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے کیونکہ اگر 16 مہینہ قبل سامرہ کے پہلے دھماکے کے بعد ہی یہ اقدام ہوا ہوتا تو آج بے حرمتی کی یہ دوسری واردات دیکھنا نہ پڑتی ۔

یقینا" سامرہ کا انتظام مذہبی قیادت کے ہاتھ میں آنے کے بعد ، حرمین عسکریین علیہما السلام میں تعمیر نو کا کام بھی از سرنو جلد از جلد شروع کیا جاسکے گا ۔پچھلے ڈیڑھ سال سے یہ کام رکا ہوا ہے اور اب مزيد تاخیر مناسب نہ ہوگی الحمدللہ جہاں تک موثق اطلاعات ہیں دنیا کے مختلف حصوں میں مقیم محبان اہلبیت علیہم السلام کی خاص توجہ کےتحت امام عصر کی سرپرستی میں حرم مطہر اور سرداب مقدس کی تعمیر جدید کے لئے اخراجات کامل طور پر فراہم ہیں صرف کام شروع کرنے کےلئے مناسب ماحول فراہم ہوجانے کی دیر ہے اور اسی ماحول کی فراہمی کے لئے دنیا بھر میں جہاں بھی ، جو بھی محمد و آل محمد علیہم السلام کا عاشق ہے ہر مکن کوشش کرنا اس کا دینی و مذہبی فریضہ ہے اور جیسا کہ ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ نے تاکید کی ہے :

" عالم اسلام کے علماء اور تمام مسلمانوں بالخصوص عراقی عوام کے لئے چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی ضروری ہے کہ دشمنوں کی فرقہ وارانہ سازشوں کی طرف سے مکمل طور پر ہوشیار رہتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لیں اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا پہلے سے زیادہ خیال رکھیں" ۔ یاد رکھیں سامرہ کا روضہ صدیوں سے اس شہر کے اہل سنت کے درمیان معزز اور قابل احترام رہا ہے جبکہ اس ملک پر قابض قوتوں کی موجودگي کے بعد سے دوبار اس مقدس مقام کی اہانت کی جاچکی ہے ۔

   تحریر : سید ولی الحسن رضوی