• صارفین کی تعداد :
  • 4354
  • 8/7/2011
  • تاريخ :

سورۂ رعد کي آيت  نمبر  20-18  کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم
للّذين استجابوا لربّہم الحسني و الّذين لم يستجيبوا لہ لو انّ لہم مّا في الارض جميعا" و مثلہ معہ لافتدوا بہ اولئک لہم سوء الحساب و ما ولہم جہنّم و بئس المہاد -( يعني ) ان لوگوں کے لئے جو اپنے پروردگار کي (دعوت پر ) لبيک کہتے ہيں بڑا اچھا انجام ہے اور جو لوگ ( اس کي دعوت کو ) قبول نہيں کرتے اگر وہ سب کچھ جو روئے زمين پر ہے اور اس کے برابر اس ميں اور شامل کرديں اور يہ سب کا سب اپني نجات کے لئے فديہ قرار ديں پھر بھي ان کے لئے بڑا ہي سخت و برا حساب ہے ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور ( وہ ) کس قدر خراب جگہ ہے-

پہلے تو خداوند عالم نے مشرکين کے خلاف اتمام حجت کي ہے اور ايک مثل کے ذريعے حق و باطل کا فرق بتا کر اہل حق اور اہل باطل کے درميان امتياز کي نشاندہي کي ہے اور پھر تفصيل کے ساتھ دونوں راہوں کا فرق يعني ايک طرف ايمان اور عمل صالح اور دوسري طرف شرک اور بدعملي کو علي الترتيب مومنين و مشرکين کي پہچان قرار ديا ہے چنانچہ يہ آيت اور اس کے بعد کي آٹھ نو آيات ميں بھي اسي مثل کي بنياد پر خداوند سبحان نے عقيدۂ حق، حق پر ايمان ، دعوت حق پر لبيک کہنا اور قبول کرنا نيز کفر و شرک کے باطل اعتقادات کے غلط اثرات ، حق اور دعوت حق کي مخالفت اور انکار و غيرہ کا Иر کيا ہے جس کا ثبوت اس کے بعد کے فقرات ہيں کيونکہ ان ميں اہل ايمان کي خوش انجامي اور اہل کفر کي عاقبت خراب ہوجانے کي بات ہے اور اعلان کيا گيا ہے کہ اس انجام کو پوري دنيا کي تمام نعمتيں اگر دوبرابر بھي کردي جائيں تو بھي ان کا تدارک نہيں کرسکتيں يعني اگر يہ لوگ اپني زندگي کي تمام آرزوئيں حاصل کر چکے ہوں بلکہ اس سے مافوق ان کےہاتھ آگيا ہو تو بھي خدا کے حکم کي نافرماني کے تحت جو کچھ انہوں نے کھوديا ہے اس کے برابر قرار نہيں ديا جا سکتا - گويا کفار کي نافرماني کا انجام اتنا سخت ہوگا کہ اس سے نجات کےلئے وہ اپني تمام پونچي دوبرابر کرکے بھي فديہ ميں دنيا چاہيں تو کوئي فائدہ نہيں ہے ان کا ٹھکانا جہنم ميں ہوگا جو بدترين جگہ ہے جو ان کے لئے تيار کي گئي ہے -روايات ميں آيا ہے کہ جو لوگ دنيا ميں خدا کے بندوں سے سختي کے ساتھ پيش آتے ہيں اور حساب کتاب ميں شدت کا مظاہرہ کرتے ہيں خداوند عالم قيامت ميں ان کا بھي بڑي سختي سے حساب کتاب لے گا -اور اب سورۂ رعد کي آيت 19 ارشاد ہوتا ہے :

افمن يّعلم انّما انزل اليک من رّبّک الحقّ کمن ہو اعمي انّما يت ذ کر اولوالالباب آيا وہ شخص جو يہ جانتا ہے کہ آپ پر جو کچھ بھي آپ کے پروردگار کي جانب سے نازل ہوا ہے حق ہے اسي شخص کي مانند ہے جو اندھا ہے؟ ( اوراس حقيقت کو درک نہيں کرتا ) جي ہاں! اس حقيقت کو صرف صاحبان عقل و بصيرت ہي سمجھ سکتے ہيں -

اس آيت ميں سلسلۂ گفتگو کو جاري رکھتے ہوئے اہل ايمان و اہل کفر کے درميان مقابلے اور موازنے کے لئے استفہام انکاري يعني سواليہ انداز ميں کسي غلط تصور کے انکار کا انداز اپنايا گيا ہے کہ آيا جس کے دل ميں علم حق کے باعث حق جاگزيں ہوچکا ہے اور خدا کي جانب سے دعوت حق کو قبول کرتا ہے کيا اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو جہالت کے سبب حق کو پہچاننے کي قوت ہي نہ رکھتا ہو، ظاہر ہے جو لوگ حق کو قبول کرتے ہيں اپني عقل و دانائي اور فہم و بينائي کي بنياد پر قبول کرتے ہيں وہ حقائق کو ديکھتے اور محسوس کرتے ہيں ليکن جو لوگ حق کو ديکھ کر قبول نہ کريں يقينا" عقل و بصيرت سے محروم ہيں اندھے اور نابينا ہيں ممکن ہے کھوپڑي ميں، بظاہر ان کي آنکھيں سلامت ہوں، ليکن انساني عقل و فطرت ان کي بينائي کا ساتھ نہ دے رہي ہو معاشرے پر حکمراں غلط آداب و رسوم ، ذہني خرافات اور نفساني تعصبات نے اندھا کرديا ہو اور ايک شخص حق کو شناخت کرنے کي قوت سے محروم ہوگيا ہو ايسے ميں صاحب عقل و بصيرت ايک اندھے شخص کے برابر کيسے ہوسکتا ہے ليکن اس بات کو بھي وہي لوگ سمجھ سکتے ہيں جو صاحب عقل و بصيرت ہوں کہ جن کے لئے قرآن نے تقريبا" سولہ مقامات پر لفظ " اولوالالباب" يعني " صاحبان مغز و فکر" کي اصطلاح استعمال کي ہے -اور اب سورۂ رعد کي آيات بيس اور اکيس ، خدا فرماتا ہے :

"الّذين يوفون بعہد اللہ و لاينقضون الميثاق ، و الّذين يصلون ما امراللہ بہ ان يّوصل و يخشون ربّہم و يخافون سوء الحساب " ( يعني يہ " اولو الالباب " يعني صاحبان عقل و خرد ) وہي لوگ ہيں جو اللہ سے کئے گئے عہد و پيمان کے پابند و وفادار ہيں اور اس کے ساتھ عہد شکني نہيں کرتے ، اور يہي وہ لوگ ہيں جو ان رشتوں کو قائم و برقرار رکھتے ہيں کہ جنہيں قائم رکھنے کا اللہ نے حکم ديا ہے اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہيں اور اس کے سخت ترين حساب و کتاب سے گھبراتے ہيں -

اپني بات کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن نے اس آيت ميں بھي مرسل اعظم (ص) کي جانب سے دعوت حق پر لبيک کہنے والے ان مومنين کي خصوصيات بيان کي گئي ہيں جو علم اور عقل و بصيرت کے حامل " اولوالالباب " کي فہرست ميں شمار ہوتے ہيں اور ان کي سب سے پہلي اور سب سے اہم خصوصيت يہ ہے کہ وہ اپنے خالق و پروردگار سے کئے ہوئے عہد و پيمان کے وفادار ہوتےہيں کبھي اور کسي بھي حالت ميں عہد شکني نہيں کرتے " ميثاق " نہ توڑنے سے مراد بظاہر وہي عہد الست ہے جو ہر انسان نے اپني زبان فطرت ميں خدائے يگانہ کے حضور کررکھا ہے کہ ہم ہميشہ اس کي توحيد و يکتائي پر ايمان کے ساتھ صرف اور صرف خدائے واحد کي عبادت و پرستش اور اس کے احکام کي پابندي کرتے رہيں گے - جي ہاں، ہر شخص خدائے يگانہ کي توحيد کي فطرت پر پيدا ہوا ہے اور توحيد کے لوازم کي پابندي انساني سرشت ميں وديعت کي گئي ہے يعني يہ وہ عہد ہے جو انسان نے اپني فطرت ميں خداوند عظيم کے ساتھ باندھا ہے چنانچہ وہ تمام عہد و ميثاق جو خدا کے حکم سے اس کے تمام نبيوں اور رسولوں کے ذريعے انسان باندھتا ہے اور الہي احکام و شريعت کے عنوان سے قبول کرتا ہے يہ تمام پابندياں اسي فطري عہد کا نتيجہ ہيں اسي لئے تمام الہي اديان کو دين فطرت سے تعبير کيا گيا ہے ، صاحبان عقل وبصيرت کسي بھي الہي پيمان کو نہيں توڑتے حق و انصاف طلبي کي مانند نظرياتي پيمان ہوں يا مبدا و معاد کي مانند اعتقادي پيمان ہوں يا پھر حلال و حرام الہي کي پابندي کي مانند شرعي معاہدے ہوں وہ ہر الہي عہد کا احترام کرتے ہيں اور اسي بنياد پر اپنے خدا سے بغاوت کرنے والي طاغوتي قوتوں اور حکومتوں سے جنگ و پيکار کرتے اور عادل و نيکوکار ، ديندار حکام کي حمايت و اطاعت کرتے ہيں تا کہ ظالموں کو مسند اقتدار پر آنے نہ ديا جائے کيونکہ خدا نے فيصلہ کيا ہے : " لاينال عہدي الظالمين" اللہ کا عہد يعني الہي امامت و ولايت ظالمين تک نہيں پہنچے گي -" اولوالالباب " کي ايک اور خصوصيات يہ ہے کہ وہ اپنے ايماني اور خانداني رشتوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہيں چنانچہ قرآن نے ان رشتوں کے پاس و لحاظ کو امر الہي کي پابندي سے تعبير کيا ہے اور قرآن کے علاوہ اسلامي روايات ميں بھي ايماني برادري کومستحکم کرنے اور صلہ رحمي سے کام لينے پر بہت زيادہ زور ديا گيا ہے فرزند رسول امام جعفر صادق عليہ السلام سے اس سلسلے ميں ملتا ہے وقت شہادت آپ نے حکم ديا تھا تمام عزيز و اقارب کو، حتي جن لوگوں نے آپ کے ساتھ بدسلوکي سے کام ليا تھا ان کو بھي آپ کي طرف سے ہديہ و تحفہ پيش کيا جائے-اسي طرح آيت ميں ، " اولوالالباب " کي ايک خصوصيت خوف و خشيت الہي قرار دي گئي ہے خشيت الہي عظمت و جلالت کے سامنے قلبي تاثر اور ہيبت زدہ ہونے کو کہتے ہيں جو گہري معرفت کا نتيجہ ہے- اور اب زيربحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ:·        جو لوگ انبياء عليہم السلام کي دعوت حق پر لبيک کہتے ہيں اور احکام خدا و رسول کي پابندي کرتے ہيں ، خوش انجام ہيں اور حق کي مخالفت کرنے والوں کا انجام بہت ہي برا اور ناگوار ہے - جو چيز انسان کي بہترين آرزو ہوسکتي ہے خود مومن کے انتظار ميں ہے - اگر ہم اپني دعا  ؤں کے قبول ہونے کي توقع رکھتے ہيں تو ہم کو بھي خدا کي دعوت پر لبيک کہنا اور خدا و رسول کي اطاعت کرنا چاہئے - بہت سے نابينا جو روشن دل ہوتے، حقائق کو قبول کرليتے ہيں کيونکہ ان کے دل کي آنکھيں کھلي ہوتي ہيں اور بہت سے لوگ جو بظاہر آنکھ والے ہيں دل کي نگاہيں بند ہونے کے سبب حق قبول نہيں کرتے کيونکہ حق کو ديکھنے کي قوت سے محروم ہوتے ہيں - وہ علم و دانائي جو الہي کتب خصوصا" قرآني حقائق کو حق نہ مانے در حقيقت عقل و خرد سے دور ہے - ہوشيار و خبردار کرنا ضروريات ميں سے ہے تا کہ غفلت و جہالت کے پردے حق کو ديکھنے ميں مانع نہ ہوں اسي لئے اسلام نے اچھائي کي نصيحت اور برائيوں کي روک تھام ہر شخص کے لئے واجب قراردي ہے - عہد وپيمان کے ساتھ وفاداري عاقل و فرزانہ مومنين کي خصوصيات ميں سے ہے جو لوگ خدا سے عہد شکني کرتے ہيں مومن و عاقل نہيں ہوسکتے -  ايماني اخوت و برادري اور صلہ رحمي کا پاس و لحاظ مومنين کے خصوصيات ميں سے ہے اسلام نے مومنين خصوصا" عزيز داروں سے اپني رشتہ داري مستحکم کرنے پر بہت زور ديا ہے -

بشکريہ آئي آر آئي بي


متعلقہ تحريريں:

سورۂ رعد کي آيت  نمبر  10-6 کي تفسير

سورۂ رعد کي آيت  نمبر 5-3 کي تفسير

سورۂ رعد کي آيت  نمبر 2-1 کي تفسير

سورۃ يوسف کي تفسير

سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 111- 110 کي تفسير