تعزيھ کي تاريخ ( حصّہ سوّم )
فتح علي شاہ کے دور اقتدار کے اوائل تقريبا سن 1177 ہجري شمسي ميں ايک عمارت بنام " تکيھ نوروز خان " کو تکيھ کے مراسموں کے ليے مخصوص کر ديا گيا تھا - تعزيھ کي نمائش کے ليۓ بہت سے مذھبي اور غير مذھبي نقال اس ميں شرکت کيا کرتے تھے - ناصرالدين شاہ قاجار کے دور حکومت ميں تعزيھ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا اور اس ميں کافي حد تک وسعت آ گئي تھي - بہت سي عمارات کو تکيھ کي نمائش کے ليۓ مخصوص کر ديا گيا جن ميں تکيھ شاہي ، تکيھ ولي خان ، تکيھ قورخانھ ، تکيھ سرچشمھ ، تکيھ عزت الدولھ ، تکيھ نوروز خان ، تکيھ چھل تن ، تکيھ سيد ناصرالدين وغيرہ وغيرہ شامل تھيں -
ناصرالدين شاہ کے بعد آہستہ آہستہ تعزيھ نے اپني اہميت کھو دي - محمد علي شاہ اور احمد شاہ کے ادوار ميں مختلف معاشرتي اور سياسي وجوہات کي بنا پر ايران کے امراء نے تعزيھ کي حمايت کرنا چھوڑ دي - جب محمد علي شاہ کي حکومت کو سن 1327 ہجري قمري ميں ہٹا ديا گيا تو ملک ميں حکومتي تکيھ گاہوں پر تعزيھ کي نمائش ممنوع قراد دے دي گئي - اور پھر سن 1311 ہجري شمسي ميں جب مذھبي سومات پر پابندي عائد کر دي گئي تو اس کے بعد تعزيھ کي نمائش بالکل ہي ختم ہو کر رہ گئي - اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ تعزيھ نے اہميت کھو دي اور پھر آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہنوں سے بھي يہ فراموش ہوتا گيا - رضا شاہ کے دور ميں بھي تعزيھ ممنوع رہا اور پھر شھريور 1320 ہجري شمسي کے بعد تعزيھ نے پھر سے پھلنا پھولنا شروع کر ديا - اس دور ميں ملک کے دور دراز ديہاتوں اور قصبوں ميں تعزيھ کو نہايت سادہ شکل ميں پيش کيا جانے لگا - تعزيھ کے دوران پڑھي جانے والي متن ، اکثر اشعار پر مشتمل ہوا کرتي تھي اور اس کے شعر عام سے ہوا کرتے تھے - تعزيھ کے شعروں کو مرثيہ سراؤ ں نے ايجاد کيا اور داستان کو مذھبي قصّوں کي طرز پر مرتب کيا جاتا - تعزيھ ميں روايتي موسيقي کا استعمال بھي کيا جاتا تھا جس ميں مقامي سازوں نے بہت اہم کردار ادا کيا - ايران کے مختلف علاقوں ميں لوگ بڑي آساني کے ساتھ تعزيھ ميں مقامي سازوں اور آواز کے ساتھ شرکت کر سکتے تھے -
تحرير و پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان