• صارفین کی تعداد :
  • 1966
  • 1/4/2012
  • تاريخ :

فتح مکہ (دوسرا حصّہ)

امام علی علیہ السلام

فتح مکہ

نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے اپنے چچا عباس سے ابو سفيان کو ايک تنگ وادي ميں قيد کرنے کے لئے کھا تاکہ اس کے پاس سے لشکر اسلام گذرے جس کو ديکھ کر قريش ڈرجا ئيں جناب عباس اس کو ليکر ايک تنگ وادي ميں گئے اور اس کے پاس سے ہھتياروں سے ليس لشکراسلام گذراتو جناب عباس نے اس سے سوال کيا : يہ کون ھے ؟

سليم-

ميرے اور سليم کے مابين کيا ھے ؟

اس کے پاس سے لشکر کي دوسري ٹکڑي گذري تو اس نے عباس سے کھا: يہ کون ھے ؟

مزينہ -

ميرے اور مزينہ کے ما بين کيا ھے ؟

اس کے بعد اس کے پاس سے نبي اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کاھرے جھنڈوں والا گروہ گذرا جن کے ھاتھوں ميںننگي تلواريں تھيں اور نبي اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کو بڑے بڑے اصحاب اپنے گھيرے ميں لئے ھوئے تھے،  ابو سفيان مبھوت ھو کر رہ گيا اور اس نے سوال کيا کہ :يہ کس کا گروہ ھے ؟

يہ مھاجرين اور انصار کے درميان رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) ھيں -

آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کے بھتيجے کا ملک بڑا ھو گيا اور ان کي حکومت وسيع ھو گئي -

جناب عباس نے کھا :اے ابو سفيان ، يہ نبوت ھے -

 ابو سفيان نے اپنا سر اٹھاتے ھوئے مذاقيہ لہجہ ميں کھا :ھاں تبھي تو -

يہ جا ھل شخص ايمان لانے والا نھيں تھا،  وہ اس کو بادشاہت و سلطنت سمجھ رھا تھا ،  پھر عباس نے اس کو آزاد کر ديا تو وہ جلدي سے مکہ واپس پلٹ گيا اور اس نے يہ کھا :اے معشر قريش يہ جو کچھ تمھارے پاس ليکر آئيں اس کو قبول نہ کرنا ، اور جو بھي ابو سفيان کے گھر ميں داخل ھو جائے گا وہ امان ميں رھے گا ----

قريش نے اس سے کھا :ھميں تمھارے دروازے کي ضرورت نھيں ھے -

جو اس کا ذروازہ بند کرے گا وہ امان ميں ھے اور جو مسجد ميں داخل ھوگا وہ بھي امان ميں رھے گا-

قريش کو کچھ سکون ھوا تو انھوں نے جلدي سے ابو سفيان کے گھر اور مسجد کا گھيرا ڈال ديا -ھند ابوسفيان کے پاس بڑے رنج و غم سے بھرے دل کے ساتھ گئي وہ چيخ چيخ کر ابو سفيان کے خلاف قوم کو ابھار رھي تھي کہ اس خبيث و پليد کو قتل کردو ---

ابو سفيان ان کو ايسي غلطي کرنے سے روک رھا تھا اور ان سے تسليم ھونے کو کہہ رھاتھا ، نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) اپنے اسلامي لشکر کے ساتھ مکہ ميں داخل ھوئے جس کے ذريعہ اللہ نے قريش کو ذليل کيا ، کمزور مسلمانوں کو خو شبخت کيا ، نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کعبہ کي طرف متوجہ ھوئے ،  آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے ان بتوں کا صفاياکيا جن کي قريش پرستش کيا کرتے تھے ، نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے ھبل کي آنکھ پر کمان مارتے ھوئے فرمايا :”‌جَا ءَ الحَقّ وَزَھَقَ الْبَاطِلْ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھوْقَا“”‌حق آيا باطل مٹ گيا بيشک باطل کو تو مٹنا ھي تھا “اس کے بعد نبي اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے حضرت علي  (ع) کو حکم ديا کہ وہ آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کے کندھوں پر چڑھ کر بتوں کو توڑديں ، اور بيت اللہ الحرام کو پاک کريں آپ (ع) ان بتوں کو اٹھا اٹھا کر نيچے پھينکتے جا رھے تھے ، يھاں تک کہ آپ (ع) نے سب کا صفايا کر ديا،   يوں اسلام کے بھادر کے ھاتھوں بتوں کا صفايا ھوا ، جس طرح آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کے جد خليل نے بتوں کو تھس نھس کيا تھا-

بشکريہ: بلاغہ ڈاٹ نيٹ

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان