• صارفین کی تعداد :
  • 3736
  • 2/8/2012
  • تاريخ :

سورۂ بقره کي آيات  نمبر  3-2  کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم

خداوند حکيم کي حمد و ستائش اور نبي کريم (ص) اور اہلبيت عليہم السلام پر درود و سلام کے ساتھ " کلام نور" ليکر حاضر ہيں - جيسا کہ آپ جانتے ہيں قرآن کريم اللہ کي وہ جامع ترين کتاب ہے جو دوسري تمام الہي کتابوں کے حقائق و معارف اپنے اندر سميٹے ہوئے ہے اور اس کے کتاب حق ہونے ميں کسي طرح کا شک و شبہ نہيں پايا جاتا کيونکہ اس کي تمام تعليمات سراسر حق ہيں اس ميں باطل کي آميزش کا خدا نے کوئي امکان نہيں چھوڑا ہے اسي موضوع کي طرف متوجہ کرتے ہوئے خداوند عالم نے سورۂ بقرہ کي دوسري آيت ميں فرمايا ہے : ذَالِکَ الکِتابٌ لَارَيبَ فيہِ ہُديً لِّلمُتّقِينَ يعني وہ ( باعظمت) کتاب کہ جس ( کي حقانيت) ميں کوئي شک و شبہ نہيں، پرہيزگاروں کے لئے ہدايت ہے- کتاب آج کے انسانوں کے لئے پچھلے زمانے کي نسلوں کي وہ قيمتي ترين ميراث ہے جو اپني خاموش زبان ميں اعلي ترين مطالب و مفاہيم دنيا والوں تک پہنچا ديتي ہے يہ عام کتابوں کا ذکر ہے چہ جائيکہ وہ کتاب جو اپنے تمام الفاظ و معاني کے ساتھ آسمان سے نازل ہوئي ہے اور آيات الہي کے ايک ايک حرف و لفظ کي حفاظت کي ذمہ داري کے تحت ہرطرح کي تحريف و تغيير کے شکوک و شبہات سے پاک ہے ، رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم پر جو کچھ بھي وحي کي صورت ميں نازل ہوا آپ نے لوگوں کو پڑھکر سناديا اور اہل قلم سے لکھواديا ہے اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے اس کتاب کو حفظ کرليا اور سينوں ميں محفوظ رکھا ہے چنانچہ آج پندرہويں صدي ہجري ميں بھي اس کتاب کے کتاب خدا ہونے ميں کوئي شک و شبہ نہيں پايا جاتا -کوئي بھي انسان اس الہي کتاب کو توجہ اور دل جمعي کے ساتھ مطالعہ کرے اور قرآن کے معاني و مطالب کو بھي سمجھ سکے تو پورے يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ يہ اللہ کي کتاب ہے کيونکہ ايسے بلند و بالا مطالب اور محکم و استوار حقيقتوں پر مبني کتاب، کسي انسان کي محدود عقل و فکر خلق نہيں کرسکتي، عصر حاضر کي علمي و فکري دنيا بھي اسکا جواب پيش کرنے سے قاصر ہے چہ جائيکہ آج سے چودہ سو سال قبل کے جاہلي دور ميں ايک ايسا شخص اس کتاب کو پيش کرے ، جو امي ہے اور جس نے دنيا ميں کسي بھي شخص کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہيں کيا ہے -جہاں تک کوردل و کور باطن منافقين و مشرکين کا سوال ہے ان کي طر ف سے اٹھائے اور پھيلائے جانے والے شکوک و شبہات ان کے قلب و نظر کے مريض و متعفن ہونے کي وجہ سے ہے کيونکہ جن کي آنکھوں ميں روشني نہ ہو وہ دن ميں بھي آفتاب کے وجود ميں شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہيں-اسي لئے آيت ميں قرآن سے ہدايت و رہنمائي حاصل کرنے والوں کےلئے متقي و پارسا ہونے کي شرط قرار ديدي گئي ہے اگرچہ قرآن کي تشريعي ہدايت عام ہے قرآن سب کي ہدايت کے لئے آيا ہے اس کي ہدايت کسي بھي گروہ سے مخصوص نہيں ہے سب کو حق کي طرف بلاتا ہے ليکن اس کي تکويني ہدايت و رہبري ، پرہيزگاروں سے مخصوص ہے يعني اس کتاب سے وہي ہدايت پاتے ہيں جن کي فطرت و طبيعت سالم ہے اور ضمير و وجدان آگاہ ہےاور قرآن حکيم کي تشريعي ہدايت سے فائدہ اٹھاتے ہيں اور جسم و روح کو مريض و متعفن کردينے والے خطروں سے محفوظ رکھتے ہيں ورنہ اسي سورۂ بقرہ کي آيت ايک سو پچاسي ميں خدا نے فرمايا ہے : " شَہرُ رَمَضَان اَلّذِي اُنزِلَ فِيہِ القُران ہُدي" للنّاس " يعني ماہ رمضان المبارک ميں نازل ہونے والا قرآن تمام انسانوں کے لئے ہدايت ہے اور وہ تمام لوگ جو کسي بھي ملک و قوم و مذہب و مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اگر حق کي جستجو رکھتے ہيں اور حق کو قبول کرنے کا احساس و جذبہ کارفرما ہے تو اس سے رہنمائي حاصل کرسکتے ہيں شرط يہ ہے کہ قلب و نگاہ ضد، دشمني ، کينہ ؤ حسد اور تعصب و نفس پرستي سے پاک و صاف ہو اور اپنے مفادات کے تحت حق کو ہي مٹانے پر کمربستہ نہ ہوں ظاہر ہے اس طرح کے لوگ قرآن کي ہدايت سے بہرہ مند نہيں ہوسکتے -لہذا ابتدائي طور پر فطري تقوي اور نفس کي پاکيزگي ہوني چاہئے قرآن کي اسي افاديت کے تحت اعلان ہوا ہے " ہدي لّلمتّقين " قرآن متقين کےلئے سبب ہدايت ہے اور متقي ، لغت ميں وہ ہے جو جنگ ميں، زرہ پہنکر، خود لگاکر اور سپرہاتھ ميں ليکر دشمن کے وار سے بچنے کے پورے سامان کےساتھ اترتا ہے چنانچہ قرآني اصطلاح ميں متقي وہ ہے جو ايمان و عمل صالح کے ذريعہ وہ ملکۂ نفساني پيدا کرلے کہ نفس کے دروني اور شيطان کے بيروني حملوں سے خود کو محفوظ رکھے -اور اب سورۂ بقرہ کي تيسري آيت / ارشاد ہوتا ہے: " اَلّذينَ يُؤمِنُونَ بِالغَيبِ وَ يُقيمُونَ الصّلوۃَ وَ مِمّا رَزَقنَا ہُم يُنفِقُونَ "( يعني قرآن اُن اہل تقوي کي ہدايت کرتا ہے ) جو غيب پر ايمان رکھتے ہيں اور نماز برپا کرتے ہيں اور جو کچھ ہم نے روزي روٹي دي ہے اس ميں سے خدا کي راہ ميں خرچ کرتے ہيں-عزيزان محترم! قرآن نے عالم وجود يا عالم ہستي کو دو حصوں ميں تقسيم کيا ہے ايک غيب کي دنيا ہے جو انساني حواس سے پوشيدہ اور  پنہاں ہے اور انساني تصور کائنات يعني ديکھنے سننے چھونے سونگھنے اور چکھنے کي قوتوں سے بالاتر ہے؛ دوسري مشاہدے کي دنيا ہے جو عالم محسوسات يا عالم مادہ سے تعلق رکھتي ہے چنانچہ کچھ انسان وہ ہيں جو مشاہدات و تجربات کي بنياد پر ہي کسي وجود کو ماننے کا دعوي کرتے ہيں اور بقول خود جو کچھ ديکھتے سنتے اور حواس پنجگانہ سے محسوس کرتے ہيں ان ہي پر يقين رکھتے ہيں اور چاہتے ہيں کہ سب کچھ اپنے محسوسات سے درک کريں جبکہ حواس خمسہ کي قوت و قدرت محدود ہے اور پورے عالم ہستي کو محسوس کرنے سے عاجز ہے مثال کے طور پر جذب و کشش کي قوت کو ہي لے ليجئے جو ايک طرح کي مادي خاصيت بھي رکھتي ہے ہمارے حواس خمسہ سے محسوس نہيں کي جا سکتي بلکہ جب کوئي چيز نيچے کي طرف گرتي ہے تو پتہ چلتا ہے کہ زمين ميں کشش پائي جاتي ہے چنانچہ ہم قوت کشش اور اس کے اثرات کے تحت محسوس کرتے ہيں براہ راست اپنے حواس کے ذريعہ قوت کشش کو نہيں درک کرسکتے، اسي طرح کي اور بہت سي حقيقتيں ہيں جنہيں ہم اپنے محسوسات کے ذريعے، تجربے اور مشاہدے ميں نہيں لاسکتے -چنانچہ اپنے پيدا کرنے والے اللہ کے سلسلے ميں بھي، مادہ پرست عناصر کہتے ہيں کہ ہم اس خدا کو نہيں مانتے جو آنکھوں سے ديکھا نہيں جا سکتا يہي بات قوم بني اسرائيل نے بھي حضرت موسي (ع) سے کہي تھي " لَن نُؤمِنَ لَکَ حَتّي نَرَي اللہَ جَہرَۃً " ہم آپ پر اس وقت تک ايمان نہيں لائيں گے کہ جبتک اللہ کو آشکارا طور پر نہ ديکھليں ، انہيں معلوم تھا کہ خدا جسم و جسمانيات سے منزہ ہے اور قابل ديد نہيں ہے پھر بھي ديکھنے کي ضد کررہے تھے - اسي طرح کي فکر رکھنے والوں کو متوجہ کيا گيا ہے کہ متقي و پرہيزگار افراد غيب پر ايمان رکھتے ہيں وہ جانتے ہيں کہ خدا اور اس کے اسمائے حسنہ، اس کي طرف سے نازل ہونے والي وحي، اس کے فرشتے ، معاد اور اسکے متعلقات نيز انسان کي روح اور درد کي مانند بہت سي چيزيں محسوسات کے ذريعہ درک نہيں کي جا سکتيں صرف ان کے آثار ظاہر ہوتے ہيں اور آثار کے ذريعے ہي ان کي شناخت و معرفت ممکن ہے چنانچہ حقيقت کي جستجو رکھنے والے متقي افراد اپني شناخت صرف عالم مادہ تک محدود نہيں رکھتے اور اپنے مشاہدات و تجربات کے ساتھ غيب کي دنيا پر بھي يقين و ايمان رکھتے ہيں اور يہ علم و شناخت سے بالاتر منزل ہے اور قلب و روح بھي اس کي گواہي ديتي ہے - اسي طرح يہ لوگ اہل نماز ہيں خود بھي پڑھتے ہيں اور نماز برپا رکھنے کا اہتمام بھي کرتے ہيں اور تبليغ و تعليم کے ذريعے نماز کي سنت کو فروغ ديتے ہيں تا کہ نماز کي حقيقت يعني ہر طرح کي برائيوں سے دوري کے ساتھ خاکي انسان کے وجود ميں تواضع اور فروتني کي عادت جلوہ گر ہوسکے اور وہ خدا کي مخالفت کرنے والے طاغوت سے مقابلہ کرسکے-غيب پر ايمان اور نماز برپا کرنے کے علاوہ آيت ميں اہل تقوي کي ايک اور خصوصيت يہ بتائي گئي ہے کہ وہ اللہ کي دي ہوئي روزي سے اس کي راہ ميں خرچ بھي کرتے ہيں يعني خدا کے ساتھ اس کے بندوں سے بھي اپنا رشتہ قائم رکھتے ہيں-ظاہر ہے " انفاق" صرف مال و منال سے تعلق نہيں رکھتا بلکہ پرہيزگار افراد اپنے علم، عقل و تدبير، قوت و قدرت حتي وقت ضرورت اپني جان اور آبرو بھي خدا کي راہ ميں لگا ديتے ہيں يہ ايثار و قرباني بھي انفاق کي ہي ايک قسم ہے-  معلوم ہوا، يہ قرآن کتاب ہدايت ہے جو عالم بشريت کي رہنمائي کے لئے نازل ہوئي ہے ليکن اس کتاب ہدايت سے خدا کے پرہيزگار بندے ہي فائدہ اٹھاسکتے ہيں- ہم اسي وقت نور قرآن سے اپنے دلوں کو روشن کرسکتے ہيں جب اپني روح کو حقائق و معارف قبول کرنے کےلئے تيار کرليں، اگر شيشہ صاف ہے تو نور اس سے گزرتا ہے شيشہ کثيف ہو تو نور کي تاباني کو قبول نہيں کرتا-  عالم ہستي ، عالم مادہ تک محدود نہيں ہے بہت سے امور ہماري آنکھوں سے پنہاں ہيں ليکن عقل و دل ، آثار کي بنياد پر ان کے وجود کي گواہي ديتے ہيں- ايمان عمل کے ساتھ ہے مومن متقي اہل ايمان بھي ہے اور اہل عمل بھي، ليکن اس کے اعمال خدا کے حکم مطابق ہوتے ہيں وہ خدا ؤ رسول (ص) کي نافرماني نہيں کرتا- نماز متقي و پرہيزگار انسان کے تمام کاموں کا اصل محور ہے اور ہر برائي سے نمازي کو محفوظ رکھتي ہے- خدا کے عطا کردہ مال و منال سے خدا کي راہ ميں خرچ کرنا متقي کي پہچان ہے -

بشکريہ آئي آر آئي بي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان