• صارفین کی تعداد :
  • 3294
  • 2/9/2012
  • تاريخ :

حضرت موسى عليہ السلام كے ليے سزا ئے موت

بسم الله الرحمن الرحیم

اس واقعے كى فرعون اور اس كے اہل دربار كو اطلاع پہنچ گئي انھوں نے حضرت موسى سے اس عمل كے مكرر سرزد ہونے كو اپنى شان سلطنت كے لئے ايك تہديد سمجھا _ وہ باہم مشورے كے لئے جمع ہوئے اور حضرت موسى كے قتل كا حكم صادر كرديا _

(جہاں فرعون اور اس كے اہل خانہ رہتے تھے) وہاں سے ايك شخص تيزى كے ساتھ حضرت موسى كے پاس آيا اور انھيں مطلع كيا كہ آپ كو قتل كرنے كا مشورہ ہو رہا ہے، آپ فورا شہر سے نكل جائيں، ميں آپ كا خير خواہ ہوں_''

يہ آدمى بظاہر وہى تھا جو بعد ميں ''مومن آل فرعون '' كے نام سے مشہور ہوا، كہا جاتاہے كہ اس كا نام حزقيل تھا وہ فرعون كے قريبى رشتہ داروں ميں سے تھا اور ان لوگوں سے اس كے ايسے قريبى روابط تھے كہ ايسے مشوروں ميں شريك ہوتا تھا _

اسے فرعون كے جرائم اور اس كى كرتوتوں سے بڑا دكھ ہوتا تھا اور اس انتظار ميں تھا كہ كوئي شخص اس كے خلاف بغاوت كرے اور وہ اس كار خير ميں شريك ہوجائے _

بظاہر وہ حضرت موسى عليہ السلام سے يہ آس لگائے ہوئے تھا اور ان كى پيشانى ميں من جانب اللہ ايك انقلابى ہستى كى علامات ديكھ رہا تھا اسى وجہ سے جيسے ہى اسے يہ احساس ہوا كہ حضرت موسى خطرے ميں ہيں ، نہايت سرعت سے ان كے پاس پہنچا اور انھيں خطرے سے بچاليا _

ہم بعد ميں ديكھيں گے كہ وہ شخص صرف اسى واقعے ميں نہيں ، بلكہ ديگر خطرناك مواقع پر بھى حضرت موسى كے لئے بااعتماد اور ہمدرد ثابت ہواحضرت موسى عليہ السلام نے اس خبر كو قطعى درست سمجھا اور اس ايماندار آدمى كى خيرخواہى كو بہ نگاہ قدر ديكھا اور اس كى نصيحت كے مطابق شہر سے نكل گئے_''اس وقت آپ خوف زدہ تھے اور ہر گھڑى انہيں كسى حادثے كا كھٹكا تھا ''_

حضرت موسى عليہ السلام نے نہايت خضوع قلب كے ساتھ متوجہ الى اللہ ہوكر اس بلا كو ٹالنے كےلئے اس كے لطف وكرم كى درخواست كى : ''اے ميرے پروردگار : تو مجھے اس ظالم قوم سے رہائي بخش ''_

ميں جانتاہوں كہ وہ ظالم اور بے رحم ہيں ميں تو مظلوموں كى مدافعت كررہاتھا اور ظالموں سے ميرا كچھ تعلق نہ تھا اور جس طرح سے ميں نے اپنى توانائي كے مطابق مظلوموں سے ظالموں كے شركو دور كيا ہے تو بھى اے خدائے بزرگ ظالموں كے شركو مجھ سے دور ركھ  حضرت موسى عليہ السلام نے پختہ ارادہ كرليا كہ وہ شہرمدين كو چلے جائيں يہ شہر شام كے جنوب اور حجاز كے شمال ميں تھا اور قلم رو مصر اور فراعنہ كى حكومت ميں شامل نہ تھا _

مدين كہاں تھا؟

''مدين '' ايك شہر كانام تھا جس ميں حضرت شعيب اور ان كا قبيلہ رہتا تھا يہ شہر خليج عقبہ كے مشرق ميں تھا (يعنى حجاز كے شمال اور شامات كے جنوب ميں ) وہاں كے باشندے حضرت اسماعيل (ع) كى نسل سے تھے وہ مصر، لبنان اور فلسطين سے تجارت كرتے تھے آج كل اس شہر كانام معان ہے

نقشے كو غور سے دبكھيں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس شہر كا مصر سے كچھ زبادہ فاصلہ نہيں ہے،اسى لئے حضرت موسى عليہ السلام چند روز ميں وہاں پہنچ گئے_

ملك اردن كے جغرافيائي نقشہ ميں، جنوب غربى شہروں ميں سے ايك شہر'' معان '' نام كا ملتا ہے ، جس كا محل وقوع ہمارے مذكورہ بالا بيان كے مطابق ہے _

ليكن وہ جوان جو محل كے اندار نازو نعم ميں پلا تھا ايك ايسے سفر پر روانہ ہو رہا تھا جيسے كہ سفر اسے كبھى زندگى بھر پيش نہ آيا تھا_

اس كے پاس نہ زادراہ تھا، نہ توشہ سفر، نہ كوئي سوارى ، نہ رفيق راہ اور نہ كوئي راستہ بتانے والا ،ہردم يہ خطرہ لاحق تھا_

كہ حكومت كے اہلكار اس تك پہنچ جائيں اور پكڑكے قتل كرديں اس حالت ميں ظاہر ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كا كيا حال ہوگا _

ليكن حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہ مقدر ہوچكا تھا كہ وہ سختى اور شدت كے دنوں كو پيچھے چھوڑديں اور قصرفرعون انھيں جس جال ميں پھنسانا چاہتا تھا_

اسے توڑكر باہر نكل آئيں اور وہ كمزور اور ستم ديدہ لوگوں كے پاس رہيں ان كے درد و غم كا بہ شدت احساس كريں ور مستكبرين كے خلاف ان كى منفعت كے لئے بحكم الہى قيام فرمائيں_

بعض اہل تحقيق نے اس شہر كى وجہ تسميہ بھى لكھى ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كا ايك بيٹا جس كا نام '' مدين '' تھا اس شہر ميں رہتا تھا_

اس طويل ، بے زادو راحلہ اور بے رفيق ورہنما سفر ميں ايك عظيم سرمايہ ان كے پاس تھا اور وہ تھا ايمان اور توكل برخدا _

'لہذا جب وہ مدين كى طرف چلے تو كہا : خدا سے اميد ہے كہ وہ مجھے راہ راست كى طرف ہدايت كرے گا''_

بعض لوگ كلمہ '' مدين ''  كا اطلاق اس قوم پر كرتے ہيں جو خليج عقيہ سے كوہ سينا تك سكونت پذير تھى توريت ميں بھى اس قوم كو '' مديان ''كہا گيا ہے .

قصص القرآن

منتخب از تفسير نمونه

تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي

مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم

تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى

ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري

پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان