• صارفین کی تعداد :
  • 8296
  • 2/15/2012
  • تاريخ :

مينڈک زلزلے سے پيشگي آگاہ ہوجاتے ہيں

مینڈک

قدرتي آفات ميں عموماً سب سے مہلک زلزلے ثابت ہوتے ہيں کيونکہ ابھي تک کوئي ايسا نظام وضع نہيں کيا جاسکا جو اس ناگہاني خطرے کي پيشگي اطلاع دے سکے- ليکن اب سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ مينڈک کا حسياتي نظام اسے زلزے کي آمد سے تين روز پہلے خبردار کرديتاہے-نئي تحقيق سے مستقبل قريب ميں زلزلے کي پيش گوئي کا امکان پيدا ہوگيا ہے-

ممکن ہے کہ آپ کے ليے يہ خبر دلچسپي کا باعث ہوکہ مينڈکوں کو کئي گھنٹے اور بسااوقات دو تين روز پہلے ہي پتا چل جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے اور وہ اپنے بچاۆ کے ليے محفوظ مقامات کي طرف بھاگنا شروع کرديتے ہيں-

قدرت نے کئي جانوروں اور پرندوں کو ناگہاني خطرات سے پيشگي خبردار کرنے کي صلاحيت عطا کي  ہے- مثلاً بارش سے قبل کئي پرندے محفوظ مقامات کي طرف اڑنے لگتے ہيں- آندھي سے کافي دير  پہلے جھينگروں کي آوازيں بند ہوجاتي ہيں، خطرے کي بوسونگھ کر گھوڑے اچانک مخصوص انداز ميں ہنہنانے لگتے ہيں، اسي طرح جنگل کے جانور خطرے کو قبل از وقت بھانپ  کر جان بچانے کے ليے بھاگ کھڑے ہوتے ہيں-

ليکن اپريل2009ء ميں اٹلي کے علاقےلاکويلا ميں  تقريباً چھ درجے شدت کے  زلزلے سے پہلے کسي کو يہ علم نہيں تھا کہ مينڈکوں کو اس ناگہاني آفت کا تين روز پہلے ہي پتا چل گيا تھا-

لاکويلا ميں زلزلے سے بڑے پيمانے پر تباہي پھيلي تھي اور بڑے زلزلے کے بعد ہفتوں تک  چھوٹے زلزلوں کے  ہزاروں جھٹکے محسوس کيے گئے تھے-

زلزلہ

زلزلے کو قدرتي آفات ميں سب سے زيادہ خطرناک تصور کياجاتا ہے کيونکہ زلزلہ کسي کو سنبھلنے، سوچنے سمجھنے اور جان بچانے کا موقع نہيں ديتا اور لمحوں ميں ہنستي بستي آبادياں ملبوں کا ڈھير بن جاتي ہيں-چند سال قبل پاکستان کے شمالي علاقے ميں  ايک تباہ کن زلزلے سے صرف چند منٹ ميں درجنوں آبادياں کھنڈر بن گئي تھيں اور 80 ہزار سے زيادہ افراد موت کے منہ ميں چلے گئےتھے-

ہماري زمين بڑي بڑي چٹاني پرتوں پر قائم ہے، جن  کے کونے ايک دوسرے کے اوپر رکھے ہيں- زمين کے گہرائيوں ميں درجہ حرارت کي تبديلي ، اندورني دباۆ اور بعض دوسرے عوامل کي وجہ سے يہ چٹانيں آہستہ آہستہ کھسکتي رہتي ہيں- جب ايک چٹان دوسري چٹان سے ہٹتي ہے تو زمين کي سطح پر کئي سو ميل تک زلزلے کے جھٹکے محسوس کيے جاتے ہيں- اور پھر بعد ميں ہلکے جھٹکے (آفٹر شاکس )اس وقت تک آتے رہتے ہيں جب تک کھسکنے والي چٹان نئي جگہ پر مضبوطي سے جم نہيں جاتي-

آج کے جديد سائنسي دور ميں  ماہرين يہ جانتے ہيں کہ دنيا کے کون کون سے شہر اور آبادياں اس مقام پر واقع ہيں جہاں زمين کي تہہ ميں چٹانيں ايک دوسرے سے ملتي ہيں اور ان کے کھسکنے کے امکانات موجود ہيں، ليکن ابھي  تک ايسا کوئي نظام تيار نہيں کيا جاسکا جس سے پہ پتا چل سکے کہ چٹانوں کے کھسکنے کا عمل کب شروع ہوگا-

ليکن دو سال پہلے اٹلي کے ايک تالاب سے زلزلہ آنے سے پہلےزير تجربہ  مينڈکوں کے اچانک فرار نے سائنس دانوں کو ايک نئي راہ دکھائي-

ہوا يہ کہ ايک ماہر حياتيات مس گرانٹ ، اٹلي کے شہر لاکويلا ميں  مينڈکوں پر تحقيق کررہي تھيں-  تالاب ميں 90 کے لگ بھگ مينڈک رکھے گئے  تھے ليکن جب زلزلے سے تين روز پہلے 80 سے زيادہ مينڈک  گھبراہٹ کے عالم ميں  تالاب چھوڑ کر بھاگ گئے تو انہوں نے ناسا کے ماہرين سے رابطہ کيا-

مینڈک

سائنسي جريدے زولوجي ميں شائع ہونے والي ايک رپورٹ ميں کہا گيا ہے کہ زلزلے سے  تين روز قبل تالاب ميں زير تجربہ مينڈکوں کا فرار  محض کوئي اتفاق نہيں تھا، کيونکہ  انہيں زلزلے کے کئي روز بعدآفٹرشاکس کي شدت کم ہونے پر دوبارہ تالاب ميں رہنے پر مجبور کيا جاسکا تھا-

ناسا کے ماہرين نے اندازہ لگايا کہ زير زمين چٹانوں کے کھسکنے سے پہلے يقيناً ايسي  کيميائي تبديلياں آتي ہيں ، جسے مينڈکوں کا حسياتي نظام محسوس کرليتا ہے اور انہيں اپني جان بچا کر بھاگنے پر مجبور کرديتا ہے-

تجربات سے انہيں معلوم ہوا کہ چٹانيں اچانک اپني جگہ نہيں چھوڑتيں بلکہ شديد دباۆ کے تحت يہ عمل کئي روز پہلے شروع ہوجاتا ہے- اس دوران چٹانيں برقائے ہوئے ذرات خارج کرنا شروع کرديتي ہيں  جو زمين کي سطح پر موجود پاني  کو متاثر کرتے ہيں- ناسا کے سائنس دان فرائيڈ من   کا کہناہے کہ بہت ممکن ہے کہ پاني ميں يا اس کےقريب رہنے والے کچھ  جانداروں پر،مثلاً مينڈک وغيرہ، زمين کے اندر سے خارج ہونے والي برقي لہروں  کا شديد اثرہوتا ہو جس سے بچنے کے ليے وہ وہاں سے چلے جاتے ہوں-

ناسا ہي کے ايک اور سائنس دان ڈاکٹر فرينڈ کہتے ہيں کہ زلزلے سے قبل چٹانوں سے نکلنے والے والے برقي ذرات زمين کي سطح پر آکر ہوا ميں آئن پيدا کرديتے ہيں-

آئن مثبت چارج رکھنے والے برقي ذرات ہوتے ہيں- فضا ميں ان کي زيادتي کئي لوگوں ميں  سردرداور متلي کي کيفيت پيدا کرديتي ہے- اس کے علاوہ ان کے خون ميں دباۆ بڑھانے والے ہارمونز کي سطح بھي بلند ہوجاتي ہے- ليکن چونکہ فضا  ميں برقي ذرات  کي موجودگي کي اور بھي کئي وجوہات ہوتي ہيں  اس ليے سردرد اورمتلي کو زلزلے کي پيش گوئي نہيں سمجھا جاسکتا-

جب کہ ماہرين کا کہناہے کہ کسي ايسي جگہ سے جو فالٹ زون يعني زلزلوں کے امکاني علاقے ميں واقع ہو، پاني سے بڑے پيمانے پر مينڈکوں کے فرار کو نظرانداز نہيں کيا جاسکتا-

اس کے علاوہ کئي دوسرے عوامل بھي زلزلے کے امکان کي نشان دہي کرتے ہيں- مثلاً اکثر پالتو جانورزلزلے سے کئي گھنٹے قبل گھبراہٹ اور پريشاني ميں عجيب و غريب حرکات کرنے لگتے ہيں- فالٹ زون ميں زلزلے سے پہلے فضا ميں تابکاري کي سطح بڑھ جاتي ہے اور کرہ ہوائي کے آئن زون ميں  برقي ذرات کي مقدار تبديل ہوجاتي ہے- اس کے علاوہ اگر آسمان پر بادل ہوں تووہ اس سے کہيں مختلف دکھائي ديتے ہيں جيسا کہ عموماً نظر آتے ہيں-

مينڈکوں نے سائنس دانوں کے ليے تحقيق کے نئے دروازے کھول ديے ہيں اوريہ امکان پيدا ہوگيا ہے کہ مستقبل قريب ميں زلزلے سے کئي گھنٹے قبل اس کي پيش گوئي کي جاسکے گي- ليکن اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ زلزلہ پيما مراکز ميں مينڈک پالے جائيں گے بلکہ ايسا نظام تيار کيا جاسکتاہے جو زير زمين چٹانوں سے خارج ہونے والے برقي ذرات کي مۆثر پيمائش کرکے خطرے سے پيشگي خبردار کرسکے گا-


متعلقہ تحريريں:

آنسو کا بہنا اور ميڈيکل سائنس کا باہمي تعلق ( حصّہ  پنجم )