• صارفین کی تعداد :
  • 4272
  • 3/3/2012
  • تاريخ :

قرآن کي حقانيت اور معجزات واضح ہيں (حصّہ سوّم)

بسم الله الرحمن الرحیم

يہ امر قابل ذکر ہے کہ قرآن کريم کي چھوٹي سے چھوٹي سورت ''الکوثر'ہے جس ميں فقط دس الفاظ ہيں مگر کوئي اس وقت اس چيلنج کاجواب دے سکا نہ بعد ميں-

بعض کفار عرب جو صلي اللہ عليہ وآلہ  وسلم کے دشمن تھے ،انہوں نے اس چيلنج کا جواب دينے کي کوشش کي تاکہ يہ ثابت کرسکيں کہ محمد صلي اللہ عليہ وآلہ  وسلم جھوٹے ہيں(نعوذباللہ)مگر وہ ايسا کرنے ميں ناکام  رہے- ان ميں ايک مسيلمہ کذاب بھي تھا جس نے محمد صلي اللہ عليہ وآلہ  وسلم کي حيات مبارکہ کے آخري دنوں ميں نبوت کا جھوٹا دعويٰ کيا -اس نے قرآن مجيد کي بعض سورتوں کي نقل کرنے کي بھونڈي کوشش کي ،مثلاً:

(( اَلْفِيْلُ، وَمَا الْفِيْلُ ،وَمَا اءَدْرٰکَ مَاالْفَيْلُ،لَہُ ذَنَب دَبِيلوَّ خُرْطُوْم طَوِيْل))

'' ہاتھي ہے،اور ہاتھي کيا ہے،اور تم کياسمجھے کہ ہاتھي کياہے-اس کي ايک موٹي دم ہے اورلمبي سونڈ ہے''-

مسيلمہ نے ترنم کي خوش آہنگي ميں لاجواب اور حکمت ومعاني سے بھرپور سورة العاديات کي طرز ميں بھي فضول طبع آزمائي کي اور ''مينڈکي ''پر چند بے معني فافيہ دار جملے بھي گھڑے مگر

''چہ نسبت خاک راباعالم پاک !''

وہ سراسر احمقانہ کلام تھا جو اس نام نہاد پيغمبر پر شيطان نے نازل کيا تھا - مسيلمہ کذاب اپنے جھوٹے کلام اور باطل اعمال کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو کر جہنم کا ايندھن بن گيا -

عبداللہ بن مقفّع عربي کا ايک بڑا فصيح وبليغ اديب تھا -اس نے جب قرآن کا چيلنج پڑھاتو اس کے ہم پلہ کوئي ادبي کاوش پيش کرنے کي سوچي -اس نے بہت مغز ماري کي ليکن جب سرراہ ايک بچے کے منہ سے يہ آيت سني :

(وَقِيْل يٰاَرْضُ ابْلَعِيْ مَآءَ کِ وَيٰسَمَآءُ اَقْلِعِيْ)

'' اور کہا گيا : اے زمين !اپنا پاني نگل جا اور اے آسمان !تھم جا''

تو وہ پکار اٹھا :

''ميں گواہي ديتا ہوں کہ يہ کلام الٰہي ہے اورا س کي نظير پيش کرنا ممکن ہي نہيں ''

چناچہ يہ کفار کي بدبختي تھي کہ يہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپني ضد اور مادي فوائد کے لالچ ميں اسلام کي دولت سے محروم رہے- حضور صلي اللہ عليہ وآلہ  وسلم چونکہ اللہ تعاليٰ کے آخري نبي تھے جن کي نبوت قيامت تک قائم رہے گي ' چنانچہ ان کو معجزہ بھي ايسا ديا گيا جو قيامت تک رہے گا اور اس کو نہ صرف آج بلکہ قيامت تک ہر دور ميں پرکھا جا سکتا ہے-

يہ حقيقت ہے کہ جوں جوں زمانے نے ترقي کي ہے ويسے ہي قرآن مجيد کي حقانيت واضح ہوتي چلي گئي ہے، تمام مفسرين نے اپنے اپنے زمانے کے علم اور ترقي کے اعتبار سے قرآن مجيد کو سمجھا اور اس کي تفسير لکھي کيونکہ علم اللہ تعاليٰ کي دين ہے وہ انسان کو جس قدر چاہتا ہے کسي چيز کے بارے ميں علم عطا فرماتا ہے'جيسے کہ فرمان باري تعاليٰ ہے:

( وَلاَيُحِيطُوْنَ بِشَيْئٍ مِّنْ عِلْمِہ اِلَّابِمَا شَآءَ )

'' وہ اس کي معلومات ميں سے کسي چيز پر دسترس حاصل نہيں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسي قدر معلوم کرا ديتا ہے )''

سابقہ مفسرين کي تفسير اور موجودہ جديد سائنس کي تحقيق سے نبي کريم صلي اللہ عليہ وآلہ  وسلم کا وہ فرمان يا د آ جاتا ہے -

''قرآ ن ہي حبل اللہ المتين يعني اللہ سے تعلق کا مضبوط وسيلہ ہے اور محکم نصيحت نامہ ہے اور وہي صراط مستقيم ہے - وہي وہ حق مبين ہے جس کے اتباع سے خيالات کجي سے محفوظ رہتے ہيں اور زبانيں اس کو گڑبڑ نہيں کرسکتيں(يعني جس طرح اگلي کتابوں ميں زبانوں کي راہ سے تحريف داخل ہوگئي اور محرفين نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کرديا اس طرح قرآن ميں کوئي تحريف نہيں ہو سکے گي ،اللہ تعاليٰ نے تا قيامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرما ديا ہے )اور علم والے کبھي اس کے علم سے سير نہيں ہوں گے (يعني قرآن ميں تدبر کا عمل اور حقائق ومعارف کي تلاش کا سلسلہ ہميشہ ہميشہ جاري رہے گا اور کبھي ايسا وقت نہيں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کريں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر ليا ہے اور اب ہمارے حاصل کرنے کے ليے کچھ باقي نہيں رہا بلکہ قرآن کے طالبين علم کا حال ہميشہ يہ رہے گا کہ وہ علم قرآن ميں جتنے آگے بڑھتے رہيں گے اتني ہي ان کي طلب ترقي کرتي رہے گي اور ان کا احساس يہ ہوگا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کيا ہے وہ اس کے مقابلہ ميں کچھ بھي نہيں جو ابھي ہم کو حاصل نہيں ہوا ہے ) اور وہ قرآن کثرت مَزَاوَلَتْ سے کبھي پرانا نہيں ہو گا (يعني جس طرح دنيا کي دوسري کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے ميں آدمي کو لطف نہيں آتا، قرآن مجيد کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ جتنا پڑھا جائے گا اورجتنا اس ميں تفکر وتدبر کيا جائے گا اتنا ہي اس کے لطف و لذت ميں اضافہ ہوگا) او ر اس کے عجائب (يعني اس کے دقيق ولطيف حقائق و معارف) کبھي ختم نہيں ہوں گے--

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ ششم)