• صارفین کی تعداد :
  • 2417
  • 3/5/2012
  • تاريخ :

عيد نوروز سے جشن بہاراں تک ( حصّہ چہارم )

عید نوروز

يہاں  ہم اس بات کي وضاحت کرنا ضروري سمجھتے ہيں کہ عيد نوروز کي ابتدا  طلوع اسلام سے بہت پہلے ہوئي تھي - اسلام  تمام اقوام عالم کے ليۓ ہے جو انسان کو ايک مکمل ضابطہ حيات ديتا ہے - اسلام نے علاقائي ثقافتوں کو اسلامي رنگ ميں ڈھالنے کي کوشش کي ہے اور اسلامي حکمرانوں نے  کسي بھي مفتوح  قوم کي مثبت باتوں کو ختم نہيں کيا - عيد نوروز کے بھي بہت سے پہلو مثبت ہيں جو اسلام کي بنيادي تعلميات  کے  مطابق ہيں مثلا صلہ رحمي، دوسروں کو تحفے دينا، گھر کو صاف ستھرا کرنا، ايک دوسرے کي دعوت کرنا، غريبوں کي مدد کرنا وغيرہ وہ امور ہيں  جو مثبت اور اسلام ميں قابل تحسين ہيں جبکہ  کچھ منفي پہلو بھي ہيں جيسے بعض لوگوں کا اسراف کرنا ، اس دن گناہوں کا ارتکاب کرنا جيسے موسيقي وغيرہ جو ہر وقت اور ہر موقعہ پر حرام ہيں اور کوئي مسلمان ان امور کو انجام دينے کي اجازت نہيں دے گا چاہے وہ کسي بھي مکتب فکر يا قوم و ملت سے تعلق رکھتا ہو-

پاکستان ميں شيعہ مکتب فکر کے بعض افراد اس دن  کو مذہبي رنگ بھي ديتے  ہيں -

جناب صفدر ھمداني صاحب اپني ايک تحرير ميں لکھتے ہيں کہ

" اہل تشيح کے ہاں روايت ہے کہ اسي نوروز کے دن بارہويں امام حضرت مہدي ابن العسکري دنيا ميں ظہور فرمائيں گے اور اسي طرح اسلامي تاريخ ميں تقويم کے اعتبار سے نوروز ہي کا دن ہے جب پہلي بار دنيا ميں سورج طلوع ہوا، درختوں پر شگوفے پھوٹے،حضرت نوح کي کشتي کوہ جودي ہر اتري اور طوفان نوح ختم ہوا، نبي آخرالزمان پر نزول وحي کا آغاز ہوا،حضرت ابراہيم نے بتوں کو توڑا اور مقام غدير خم پر ولايت اميرالمومنين علي ابن ابي طالب کا اعلان ہوا- "

جبکہ بعض تنگ نظر لوگ اس تہوار کے مناۓ جانے کو بدعت اور کفر جيسے القاب سے نوازتے ہيں -

 

تحرير وترتيب :  سيد اسداللہ ارسلان