• صارفین کی تعداد :
  • 1830
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

حديث غدير ولايت کا منہ بولتا ثبوت -1

بسم الله الرحمن الرحیم

ايک يلغار جس کي ماضي ميں کوئي مثال نہيں ہے!

بعض لوگوں نے چند سال قبل ايک مضمون ميں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا کي شہادت کو افسانہ قرار ديا تھا جس کا مدلل جواب ديا گيا اور حال ہي ميں ايک شخص نے حديث غدير کے خلاف ہرزہ سرائي کي ہے جو اہل سنت کے منابع ميں موجود حقائق کے بر عکس اور اننہائي اشتعال انگيز اور نامعقول تھا؛ اس مقالے کو ديکھ کر ہم نے مختصر انداز اور شقاف مقالے کے توسط سے جواب دينا چاہا-

پيش لفظ

غدير کا نام ہم سب نے سنا ہے- غدير ايک سرزمين ہے جو مکہ اور مدينہ کے درميان جحفہ کے قريب واقع اور مکہ سے 200 کلوميٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ايک چوراہے پر واقع ہے جہاں سے تمام ممالک اور شہروں کے حجاج ايک دوسرے سے جدا ہو کر اپني اپني منزل کي طرف جا سکتے تھے- ايک راستہ مدينہ کي طرف جاتا ہے، شمال کي جانب-

ايک راستہ عراق کي طرف جاتا ہے مشرق کي جانب-

ايک راسہ مغرب کي طرف جاتا ہے مشرق کي جانب-

اور ايک راستہ يمن کي طرف جاتا ہے جنوب کي جانب-

آج يہ سرژمين ايک متروکہ سرزمين ہے ليکن کسي دن يہ تاريخ اسلام کے ايک بہت بڑے واقعے کي گواہ تھي- اور وہ دن 18 ذوالحجۃ الجرام سنہ 10 ہجري کا دن تھا جس دن رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے علي عليہ السلام کو اپنا خليفہ اور جانشين مقرر کيا اور تمام صحابہ نے آپ (ع) کے ہاتھ پر بيعت کي-

گو کہ خلفاء نے سياسي مقاصد کي بنا پر اس تاريخي واقعے کو بھولنے اور بھلانے کي بہتيري کوششيں کيں اور انتظامات کئے اور يہ سلسلہ آج تک جاري ہے اور آج بھي بہت سے متعصبين اس واقعے کو بے اثر کرنے کي کوششوں ميں مصروف نظر آرہے ہيں ليکن اس واقعے کے کا دامن تاريخ و حديث اور عربي ادب ميں اتنا وسيع ہے کہ جس کو محو تو کيا وقتي طور پر مخفي کرنا بھي ناممکن ہے-

-------