• صارفین کی تعداد :
  • 1569
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

حديث غدير ولايت کا منہ بولتا ثبوت-3

بسم الله الرحمن الرحیم

غدير کا خاکہ

--- واپسي کے سفر کا فرمان جاري ہوا- جب قافلۂ حجاج جحفہ (1) کے تين ميل کے فاصلے پر واقع "رابغ" (2) کے مقام پر پہنچا تو امين وحي حضرت جبرائيل امين "غدير خم" نامي مقام پر نازل ہوئے اور رسول اللہ (ص) کو يا آيت پہنچا دي: "يَا أيُّها الرَّسُولُ بَلِّغْ ما اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ"- (3) اے پيغمبر (ص)! جو اللہ کي طرف سے آپ پر اتارا گيا ہے، اسے پہنچا ديجئے اور اگر آپ نے ايسا نہ کيا تو اس کا کچھ پيغام پہنچايا ہي نہيں اور اللہ لوگوں سے آپ کي حفاظت کرے گا-

آيت کے لب و لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال نے "جو کچھ رسول اللہ (ص) پر نازل کيا ہے اور آپ (ص) کو اس کے ابلاغ کا حکم ديا ہے جو رسالت کے برابر اہم اور بھاري ہے اور يہ اتنا بڑا ہے کہ دشمن اس کا راستہ روکنے کے لئے سازش بھي کرے گا ليکن اللہ خود ہي رسول اللہ (ص) کي حفاظت کا وعدہ بھي ديتا ہے- اور يہ کہ سورہ مائدہ ہي کي تيسري آيت کے مطابق يہ امر عظيم اسلام سے کفار کي مايوسي اور نا اميدي کا سبب بنے گا اور کون سا امر لاکھوں افراد کے سامنے علي ابن ابي طالب عليہ السلام کي ولايت و وصايت کے اعلان سے برتر و بالا تر ہوسکتا ہے؟- 

چنانچہ توقف اور پڑاؤ ڈالنے کا فرمان صادر ہوا- قافلے ميں آگے آگے چلے والے رک گئے اور پيچھے آنے والے پہنچ آئے- ظہر کا وقت تھا اور موسم انتہائي گرم تھا اور صورت حال يہ تھي کہ بعض لوگ اپني ردا کا ايک سرا سر پر ڈالے ہوئے تھے اور دوسرا سرا پاğ کے نيچے----

-------

مآخذ:

1- جحفہ حج کے ميقاتوں ميں سے ايک ہے جہاں سے جدہ کے راستے مکہ مشرف ہونے والے احرام باندھتے ہيں-

2- "الرابغ"، اس وقت بھي مکہ سے مدينہ جانے والے راستے پر واقع ہے-

3- سورہ مائدہ آيت 67-