• صارفین کی تعداد :
  • 1561
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

حديث غدير ولايت کا منہ بولتا ثبوت-7

بسم الله الرحمن الرحیم

نہ صرف خطباء اور مقررين بلکہ شعراء بھي اس واقعے سے الہام لے کر اپنے ذوق کو اس عظيم واقعے کي نسبت تفکر اور صاحب ولايت کي نسبت اپنے اخلاص کے ذريعے جلا بخشتے ہيں اور مختلف صورتوں اور مختلف زبانوں ميں اعلي ترين اشعار يادگار کے طور پر تاريخ کے سينے پر ثبت کرتے ہيں- (علامہ عبدالحسين اميني رحمۃاللہ عليہ نے 11 جلدوں پر مشتمل کتاب "الغدير" ميں اشعارِ غدير، ہر صدي کے شعراء کو الگ الگ کرکے، نقل کئے ہيں الغدير درحقيقت حديث غدير کا عظيم دائرة المعارف ہے)-

بالفاظ ديگر دنيا کا کوئي بھي واقعہ غدير کي مانند مختلف طبقات، محدثين، مفسرين، متکلمين، فلاسفہ، خطباء، شعراء، مؤرخين اور سيرت نگاروں کي توجہ کا مرکز نہيں رہا-

اس واقعے کي ابديت کا ايک اہم سبب يہ ہے کہ اس کے بارے ميں قرآن کي دو آيتيں (7) نازل ہوئي ہيں چنانچہ جب تک قرآن ابدي اور جاوداني ہے غدير بھي ابدي اور جاوداني ہے اور يہ تاريخي واقعہ کبھي بھي ذہنوں سے مٹ نہيں ہوسکے گا-

***

دلچسپ نکتہ يہ ہے کہ تاريخ سے رجوع کرکے بخوبي اندازہ لگايا جاسکتا ہے کہ 18 ذوالحجۃالحرام ابتداء سے مسلمانوں کے درميان "عيد غدير" کے نام سے مشہور ہے؛ يہاں تک کہ "ابن خلکان" "المستعلي بن المستنصر" کے بارے ميں لکھتے ہيں: "سنہ 487 کي "عيد غدير" کے موقع پر 18 ذوالحجۃالحرام کو لوگوں نے "المستعلي بن المستنصر" کے ہاتھ پر بيعت کي- (8) اور "المستنصر باللہ العبيدي" کے بارے ميں لکھتے ہيں کہ ذوالحجۃ الحرام 478 کے 12 دن باقي تھے کہ المستنصر کا انتقال ہوا- اور يہ اٹھارہ دوالحجۃالحرام  يعني "عيد غدير" کي رات تھي- (9)

اس سے بھي زيادہ دلچسپ امر يہ ہے کہ "ابوريحان البيروني" نے اپني کتاب "الآثار الباقيہ" ميں "عيدغدير" کو ان اعياد کي فہرست ميں ذکر ہے جن کو عام مسلمان جش منايا کرتے تھے"- (10)

---------

مآخذ

7- سورہ مائدہ آيات 3 و 60-

8- وفيات الأعيان ج1ص0-

9- وفيات الأعيان ج2 ص223-

10- ترجمة الآثار الباقية ص395؛ الغدير ج1 ص267-