• صارفین کی تعداد :
  • 1759
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

حديث غدير ولايت کا منہ بولتا ثبوت-19

بسم الله الرحمن الرحیم

سوال يہ ہے کہ علي عليہ السلام کو ايسا کونسا عہدہ اور منصب عطا ہوا ہے کہ آپ (ع) کو اس طرح تبريک و تہنيت دي جارہي ہے؟ کيا ‌زعامت و خلافت اور امت کي رہبري و امامت کے سوا کسي بھي عہدے پر ـ‌ جس کا اعلان پہلي مرتبہ ہوا تھا ـ تبريک و تہنيت کہنا نامناسب نہ ہوگا؟- محبت اور دوستي تو کوئي نئي بات نہيں تھي-

***

آٹھواں گواہ:

ہرگاہ علي عليہ السلام کي دوستي مقصود ہوتي، اس شديد گرم ہوا ميں لوگوں کو روک کر اس دوستي کا اعلان کرنے کي کيا ضرورت تھي- ايک لاکھ افراد کو گرم ہوا ميں صحرا ميں روکا گيا اور انہيں گرم زمين پر بٹھايا گيا اور رسول اللہ (ص) نے مفصل خطبہ پڑھا اور لوگوں کو مغرب تک بيعت و تبريک کے لئے بٹھايا گيا- اس کي کيا ضرورت تھي؟ (کيا علي عليہ السلام اس سے پہلے مسلمانوں کے دوست نہيں تھے؟)- (27)

***

نواں گواہ:

ہر گاہ ہم فرض کيا جائے کہ غدير خم کے مقام پر رسول اللہ (ص) نے اللہ کے حکم پر علي (ع) کي ولايت کا اعلان کيا اور ولايت سے مراد دوستي کے سوا کچھ نہيں ہے تو يہ اہم مسئلہ پيش آئے گا کہ کيا مسلمان اس سے پہلے آپس ميں دوست نہيں تھے؟ کيا خداوند متعال نے مسلمانوں کو بھائي بھائي قرار نہيں ديا تھا؟ اللہ تعالي نے فرمايا: "إنّما المُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ" (28) ---

---------

مآخذ

27- طبري زيد بن ارقم سے روايت کرتے ہيں کہ جن لوگوں نے سب سے پہلے بيعت و اطاعت کا ہاتھ رسول اللہ (ص) اور علي (ع) کي طرف پھيلايا وہ ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبير تھے اور ان کے بعد باقي مہاجرين و انصار کي باري آئي اور لوگوں نے رسول اللہ (ص) کي امامت ميں ظہر و عصر کي نماز ملا کر پڑھ ليں اور بيعت کا سلسلہ تين دن تک مسلسل جاري رہا- (الولايۃ في طرق حديث الغدير" ابن جرير طبري صص ص89 تا 92)-

28- سورہ حجرات آيت10-