• صارفین کی تعداد :
  • 3870
  • 6/23/2012
  • تاريخ :

استاد عبدالباسط کے حالات زندگي ان کي اپني زباني  ( حصّہ سوّم )

استاد عبدالباسط

دوسرے دن بھي مجھے قرآن پڑھنے کے ليۓ  دعوت دي گئي جسے ميں نے قبول کر ليا -  وہاں پر موجود بعض منتظمين کہ جنہيں ميں نہيں جانتا تھا انہوں نے مجھے بلوايا اور سوال کيا کہ  " آپ کہاں کے رہنے والے ہيں ؟ "

ميں نے جواب ديا " ميں صعيد  کے ايک ارمنت نامي ديہات کا رہنے والا ہوں -

انہوں نے مجھ سے کہا ! "  آپ ريڈيو پر تلاوت کيوں نہيں کرتے ہيں - اس سے آپ کو شہرت بھي ملے گي ؟ "

ميں نے جواب ديا " ميں صعيد ميں مشہور ہوں "

انہوں نے کہا ! " بجاۓ اس کے کہ ايک علاقے ميں شہرت حاصل کرو ، تمام دنيا ميں معروف ہو جاؤ گے - "

ميں نے جواب ديا "  مجھے اس  سلسلے ميں  اپنے والد محترم اور دوسرے بزرگوں سے بات کرني ہو گي "

انہوں نے مجھ سے کہا ! خدا پر توکل کرو اور ريڈيو پر آؤ -  مجھے بھي اس بات کا احساس تھا کہ اس دعوت  کو قبول کرنے سے ميرے ليۓ ترقي کے دروازے کھل جائيں گے ، اس  ليۓ ميں نے ان کي بات مان لي - اس زمانے ميں  شيخ الضباع قرآني جلسوں کے مسؤل تھے اور  انہوں نے قرآت اور قرآني علوم کے متعلق کتب بھي لکھيں تھيں - جب شيخ کو پتہ چلا کہ ميں قرآت سبع  حفظ کر چکا ہوں  تو انہوں نے مجھے مبارک باد دي اور مجھ سے وعدہ کيا کہ مجھے ريڈيو پر  وقت ديا جاۓ گا -

اس کے بعد ميں تقريبا ہر ايک مہينے کے بعد ريڈيو پر  تلاوت کيا کرتا تھا -  ميں فجر کي نماز کو حضرت زينب (س) کے مقام پر پڑھتا اور خيابان علوي ميں واقع ريڈيو اسٹيشن تک پيدل جايا کرتا تھا -  ميں صبح 6 بج کر پانچ منٹ سے لے کر  7 بجے تک تلاوت قرآن کيا کرتا تھا -

تحرير: سيد اسد الله ارسلان


متعلقہ تحريريں:

فلسطيني جہاد اسلامي کے اعلي کمانڈر محمد شحادہ، کيوں شيعہ ہوئے؟ (حصّہ دوّم)