• صارفین کی تعداد :
  • 2729
  • 7/25/2012
  • تاريخ :

روزہ اور خود اعتمادي

رمضان المبارک

 اسلام نے انساني فکر وعمل کي پاکيزگي اور تندرستي کےلئے جو عبادات وشعائر مقرر کئے ہيں ان ميں روزے کو بڑي اہميت ہے - اسلام جو دين فطرت ہے فطرت انساني کي کمزوري سے بخوبي آگا ہ ہے اس نے روزے کو فرض قرار دے کر عادتوں کے مقابلے ميں ہماري خود اعتمادي کو مضبوط بنانا چاہا روزے کي پہلي ضرب ہماري عادتوں پر پڑتي ہے وہ ہمارے سونے جاگنے کے اوقات تبديل کرتا ہے کھانے پےنے پر اور دوسري ضروريات پر پابندي عائد کرتا ہے يہ نہيں ہے کہ کوئي چيز ہماري دست رس سے باہر کردي جاتي ہے اور ہم مجبور اً اس کے بغير گذارا کرتے ہيں بلکہ اس کے برعکس کھانے پينے کا سارا سامان اور دوسري طبعي ضروريات ہمارے سامنے ہوتي ہيں ليکن ہم ان کي طرف آنکھ اٹھا کر بھي نہيں ديکھتے ہم کوئي عادت پوري نہيں کرتے اور نہ ہي کسي عادت کا حکم مانتے ہيں اور پورا ايک مہينہ اس طرح گزارتے ہيں گويا ان عادتوں کے کبھي محکوم تھے ہي نہيں -

اس طرح ہرگيارہ مہينے کے بعد ايک مہينہ ہم اپني عادتوں کو يکسر بدل ديتے ہيں ہم نيند کي زنجيروں کو توڑتے ہيں پياس کے شديد مطالبے کو رد کرتے ہيں بھوک کي تکليف کو نظر انداز کرتے ہيں نفساني خواہشات کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتے ہيں پھر اگر ہميں روزے کے حقيقي مقصد يعني تقوي، کا پاس ہو تو ہم ہر قسم کے فواحش و منکرات سے بھي پرہيز کرتے ہيں جس سے ہميں محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندہ قوت ارادي کے مالک ہيں عادتوں کے ہم غلام نہيں بلکہ عادتيں ہماري غلام ہيں- مضر عادتوں کو چھوڑ کر ہم مفيد اور نئي عادتيں اختيار کر سکتے ہيں اپنے اخلاق و کردار کے لئے بہتر سانچے تلاش کرکے ان ميں ڈھل سکتے ہيں عادتوں کي اس تبديلي سے ہم ميں اعتماد نفس کا جو ہر پيدا ہوتا ہے اگر ہم اس جوہر کو زندہ محفوظ رکھيں تو آئندہ زندگي کے دوسرے کئي مسائل پر ہم فتح حاصل کر سکتے ہيں -

روزہ کے تربيتي کورس کي مدت ايک مہينہ مقرر کي گئي ہے جس کے لئے ثابت قدمي اور استقلال کي ضرورت ہے جو شخص شروع سے آخر تک روزے کے تمام قواعد و شرائط کي پابندي کرے گا اس ميں خود بخود يہ احساس پےدا ہوگا کہ وہ صبر آزما حالات سے مقابلے کي صلاحيت بھي رکھتا ہے اور جب کبھي کوئي کٹھن مرحلہ پيش آئے تو مستقل مزاجي اور پامردي کا ثبوت دے سکتا ہے -

ہميں اس بات کا خاص خيال رکھنا چاہيے کہ رمضان المبارک ميں ہميں جو قوت ارادي ، خود اعتمادي اور مستقل مزاجي کي دولت ميسر آئي ہے وہ کسي صورت ضائع نہ ہونے پائے مگر افسوس يہ ہے کہ اکثر حالتوں ميں اخلاقي اوصاف کا يہ نہايت مفيد موقع ضائع کر ديا جاتا ہے اس صورت حال کي ذمہ داري روزے پر تو ہر حال ميں عائد نہيں ہو سکتي بلکہ در حقيقت وہ نقطہ نگاہ ہي اس حالت کا ذمہ دار ہے جو روزے کے متعلق عوام ميں پايا جاتا ہے وہ سمجھتے ہيں کہ صبح سے شام تک بھوکا پيا سا رہنے سے روزے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اس کے برعکس قرآن حکيم نے واضح طور پر بتا ديا کہ روزہ وہ ہے جس سے انسان ميں تقويٰ (پرہيز گاري ) پيدا ہو دوسرے لفظوں ميں روزہ ايک ”‌ذريعہ ہے اور پرہيز گاري اس کا مقصد مگر ہم نے ذريعہ کو مقصد سمجھ ليا اور مقصد کي طرف کوئي توجہ نہيں دي نتيجہ ظاہر ہے ہم تيس دن بھوکے پياسے بھي رہتے ہيں نماز قرآن مجيد کي تلاوت بھي پابندي سے کرتے ہيں اور جب يہ مبارک مہينہ گذر جاتا ہے تو ہمارے ظاہر وباطن ميں کوئي تبديلي واقع نہيں ہوتي اور پھر شوال ميں ہم بالکل ويسے ہي ہوتے ہيں جيسے شعبان ميں تھے -

آج ضرورت ہے کہ ہم روزے کے متعلق اپنا نظريہ بدليں اگر ہم اپنے طرز فکر کي اصلاح کرليں اور ہمارا اعتقاد ہوکہ رمضان پرہيز گاري کي مشق کا مہينہ ہے اور اس مشق کے جو نتائج حاصل ہوں وہ ہميں برقرار رکھنا ہيں تو اس ميں کوئي شک نہيں کہ ہميں حقيقي فوائد حاصل ہوں گے اور ہماري خود اعتمادي ميں چار چاند لگ جائيں گے ساتھ ہي ہمارے ذہن اور اعمال ميں پاکيزگي بھي پيدا ہوگي -

روزہ کے بارے ميں اب تک يہي خيال کيا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہيں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے مگر جيسے جيسے سائنس اور علم طب نے ترقي کي اس حقےقت کا بتدريج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ايک طبعي معجزہ ہے- قرآن حکيم ميں سورة بقرہ کي آيات 183سے 187 تک دين کے اہم رکن روزہ کا حکم ديا گيا ہے اور تمام تفصيلات بتائي گئي ہيں-آيت نمبر 184 آخري حصہ ميں بتايا گيا ہے کہ روزہ ايک اچھي چيز ہے جس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہيں اس امر کا بھي اعلان کےا گيا کہ ہم اس سے حاصل کردہ رحمتوں کو سمجھ سکتے ہيں اگر ہم سچ کو پہچان سکيں تو قارئين آئيے ہم سائنس کے نظريہ سے ديکھتے ہيں کہ روزہ کس طرح ہماري صحت مند ميں مدد ديتا ہے اور صحت کا محافظ ہے-

تحرير: ڈاکٹر عاصم فاروق انصاري

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

ماه رمضان ميں قرآن کي تلاوت