• صارفین کی تعداد :
  • 3865
  • 8/21/2012
  • تاريخ :

مسلمان کو ہر ملک کو اپنا وطن اور ہر زمين کو اپنا گھر سمجھنا چاہئے

سید جمال الدین افغانی

اقبال کہتے ہيں کہ ميں نے نماز کے بعد ادب و محبت سے ان کے ہاتھ چومے اور رومي نے ان سے ميرا تعارف کراتے ہوئے کہا يہ سيلاني کسي منزل پر ٹھہرتا ہي نہيں اور دل ميں تمناۆں کي ايک دنيا لئے پھرا کرتا ہے، يہ مرد آزاد اپنے سوا کسي کا قائل نہيں، قلندري و بے باکي اس کا پيشہ اور اس کي زندگي ہے اسي لئے اسے ’’زندہ رود‘‘ کہتا ہوں-

افغاني ان سے خاکدانِ عالم کے احوال پوچھتے ہيں اور خاک نژاد ليکن نوريں نہاد--- مسلمانوں--- کے بارے ميں بيتابي سے سوال کرتے ہيں، ميں نے کہا کہ سيدي! امت جو تسخير کائنات کے لئے اٹھي تھي اب دين و وطن کي کشمکش ميں مبتلا ہے اب ايمان کي طاقت اور روح کي قوت اس ميں باقي نہيں اور دين کي عالمگيري پر بھي اسے چنداں اعتبار نہيں،اس لئے قوميت و وطنيت کے سہارے لے رہي ہے ترک و ايراني مئے فرنگ سے مخمور اور اس کے مکر و فريب سے شکستہ و رنجور ہيں،اور مغربي قيادت نے مشرق کو زار و نزار بنا ديا ہے،اور دوسري طرف اشتراکيت دين و ملت کي عزت سے کھيل رہي ہے ؛

روح در تن مردہ از ضعف يقيں

نا اميد از قوتِ دين مبيں !

ترک و ايران و عرب مستِ فرنگ

ہر کسے را ور گلو شستِ فرنگ

مشرق از سلطانيِ مغرب خراب

اشتراک از دين و ملت بردہ تاب

(ترجمہ:

يقين کي کمزوري کي وجہ سے اس کے جسم ميں روح مردہ ہو چکي ہے اور وہ روشن دين کي قوت سے نا اميد ہے-

ترک، ايران اور عرب سب فرنگ (کي شراب ميں ) مست ہيں اور ہر کسي کے گلے ميں فرنگ کا کانٹا اٹکا ہوا ہے-

سلطانيِ مغرب نے شرق کو تباہ کر ديا ہے اور اشتراکيت نے دين و ملت کي چمک ختم کر دي ہے- )

افغاني نے يہ سب صبر و سکون ليکن حزن و الم کے ساتھ سنا اور وہ پھر يوں گويا ہوئے ’’عيار فرنگ نے اہل دين کو قوم د وطن کي پٹي پڑھائي وہ اپنے لئے تو ہميشہ نئے مرکز اور نوآباديات کي فکر ميں رہتا ہے ليکن تم ميں پھوٹ ڈالے رہنا چاہتا ہے، اس لئے تمہيں ان حدود سے نکل کر آفاقي اور عالمي رول ادا کرنا چاہئے، مسلمان کو ہر ملک کو اپنا وطن اور ہر زمين کو اپنا گھر سمجھنا چاہئے، اگر تم ميں شعور ہے تو تمہيں جہانِ سنگ و خشت سے بلند ہو کر سوچنا ہو گا کہ- دين انسان کو ماديات سے اٹھا کر اسے عرفان نفس سکھاتا ہے جو انسان ’’اللہ‘‘ کو پا ليتا ہے وہ پوري دنيا ميں بھي نہيں سما سکتا اور کائنات بھي اسے تنگ محسوس ہوتي ہے، گھاس پھوس مٹي ہي ميں فنا ہو جاتے ہيں ليکن عظمت انسانيت کا يہ انجام نہيں، آدم خاکي ہے، ليکن اس کي روح افلاکي ہے، انسان کا ظاہر زمين کي طرف مائل ہے، ليکن اس کا اندرون کسي اور ہي عالم کا قائل ہے، روح مادي پابنديوں سے گھبراتي ہے، اور حدود و قيود سے ناآشنا ہي رہتي ہے، جب اسے وطنيت کي مٹي ميں بند کرنے کي کوشش کي جاتي ہے تو اس کا دم گھٹنے اور اس کي سانس رکنے لگتي ہے--- شاہين و شہباز پنجروں ميں کيا آشيانوں ميں بھي کبھي رہنا گوارا نہيں کرتے-

تحرير: مولانا سيد ابوالحسن علي ندوي

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

افغاني کا پيام