• صارفین کی تعداد :
  • 4292
  • 9/18/2012
  • تاريخ :

افغاني :  قرآن کي تعليمات دوسري ہيں اور مسلمانوں کا عمل دوسرا ہے

جمال الدين افغاني

افغاني کہتے ہيں کہ قرآن کي تعليمات دوسري ہيں اور مسلمانوں کا عمل دوسرا ہے ان کي زندگي کا شرارہ بجھ چکا اور ان کا حضور(ص)  سے تعلق ختم ہو چکا ہے، آج مسلمان اپني زندگي اور معاشرے کي اساس قرآني ہدايات پر نہيں رکھتا،اس کے نتيجے ميں وہ دين و دنيا ميں پسماندہ رہ گيا ہے، اس نے قيصر و کسريٰ کا نظام استبداد توڑ ديا ليکن خود ملوکيت کا علمبردار بن گيا اور عجمي سياسيات کو اپنا ليا اور زندگي کا نقطہ نظر ہي بدل ڈالا :

دردِل اُد آتشِ سو زندہ نيست

مصطفے ٰ(ص)  اور سينۂ اور تدہ نيست

بندۂ مومن ز قرآں برنخورد

در ياغِ  اونہ مئے ديدم نہ دُرد!

خود طلسم قيصر و کسريٰ شکست

خود سرِ تخت ملوکيت نشست

(ترجمہ:

اس کے دل ميں آتش سوزاں نہيں ہے اور مصطفي (ص) کا پيام سينہ ميں زندہ نہيں ہے-

بندۂ مومن نے قرآن سے کچھ نہيں سيکھا- اس کے پيالے مين نہ مئے ہے نہ تلچھٹ-

اس نے قيصر و کسريٰ کا جادو توڑا، ليکن خود ہي ملوکيت (تخت و تاج) ميں گرفتار ہو گيا- )

افغاني ملت روسيہ کو پيغام ديتے ہوئے کہتے ہيں کہ تم نے بھي مسلمانوں کي طرح قيصر و کسريٰ  کا نظام ختم کيا ہے تمہيں مسلمانوں سے عبرت لينا چاہئے، اور زندگي کے معرکے ميں عزم و ثبات سے قائم رہنا، اور ملوکيت و وطنيت کے اصنام کو شکستہ کرنے کے بعد انھيں اب بھولے سے بھي ياد نہيں کرنا چاہئے، آج دنيا کو اس امت کي ضرورت ہے جو وعد و وعيد، رحمت و شدت نرمي و گرمي دونوں رکھتي ہو، تم مشرق سے روحانيت و مذہبيت لو کيونکہ مغربي مذہب پرستي کھوکھلي ہو چکي ہے، اب ان گڑے مردوں کو ہرگز مت اکھيڑنا تم نے خدايانِ باطل کا انکار کر کے مرحلۂ نفي طے کر ليا ہے، اب ’’الا اللہ‘‘ کي اثباتي مہم بھي تمہيں سرانجام دينا چاہئے اس طرح تمہارا کارنامہ مکمل اور سفر تمام ہو سکے گا، تمہيں عالمي نظام کي فکر ہے تو اس کے لئے پہلے محکم اساس تلاش کرو اور وہ اساس دين عقيدہ کے سوا اور کچھ نہيں-

تم نے خرافاتِ عالم کي سطر سطر مٹا دي ہے، اس لئے تمہيں اب قرآن کا حرف حرف پڑھنا چاہئے، تمہيں معلوم ہو گا کہ قرآن ملوکيت و آمريت  کا جاني دشمن اور سرمايہ داري کي موت ہے، اور غلاموں، مزدوروں اور مجبوروں کے لئے زندگي، وہ ضرورت سے زائد سرمايہ غريبوں پر خرچ کرے کي تاکيد کرتا ہے، وہ سود کو حرام اور تجارت کو حلال کرتا اور قرض حسنہ اور صدقۂ جاريہ پر لوگوں کو ابھارتا ہے يا دنيا کے فتنوں اور بے رحميوں کا سرچشمہ سود نہيں ؟ قرآن کہتا ہے کہ زمين سے نفع حاصل کيا جا سکتا ہے ليکن ملکيت خدا کي ہے، اس لئے وہ امين اور وارث ہے، مالک مطلق نہيں بادشاہوں نے حق کا علم سرنگوں کر ديا اور خدا کي دنيا ان سے پامال ہو گئي ہے، قرآن حق و صداقت کي آواز بلند کرتا اور کہتا ہے کہ ابن آدم کے لئے زمين ايک وسيع دسترخوان ہے، اور کل نوع انساني ايک خاندان اسي لئے جب قرآني حکومت قائم ہوئي تو غلو پسند راہب اور سنياسي چھپ گئے اور پاپائيت اور کليسا کا طلسم ٹوٹ گيا،قرآن صرف ايک کتاب ہي نہيں بلکہ اس کے علاوہ بہت کچھ ہے، وہ انسان کو بدل ديتا ہے اور پھر کائنات کو بدل ديتا ہے، يہ وہ زندہ کتاب ہدايت و سعادت ہے، جو قلب کائنات کي دھڑکن اور مشرق و مغرب کا مامن ہے، ا س سے مشرق و مغرب دونوں ہي کي تقدير بندھي ہوئي اور انسانيت کا مستقبل وابستہ ہے-

تم نے نيا قانون و آئين بنايا ہے، اس لئے تمہيں چاہئے کہ دنيا پر ذرا قرآن کي روشني ميں بھي ايک نظر ڈال کر ديکھو کہ زندگي کي حقيقت سمجھ سکو:

باسيہ فاماں يد بيضا کہ داد ؟

مژدۂ لا قيصر  و کسريٰ کہ داد ؟

جز بقرآں ضيغمي روباہي ست

فقرِ قرآں اصل شاہنشاہي است

فقر قرآں اختلاطِ ذکر و فکر

فکر را کامل نديدم جز بہ ذکر

چيست قرآن خواجہ را پيغام مرگ

دستگير بندۂ بے ساز و برگ

رزق خود را از زميں بردن رواست

ايں متاع بندۂ وملکِ  خداست

نقش قرآں تا دريں عالم نشست

نقشہائے کاہن و پاپا شکست

فاش گويم آنچہ در دل مضمر است

ايں کتابے نيست چيزے ديگر است

چوں بجاں در رفت جاں ديگر شود

جاں چوں ديگر شد جہاں ديگر شود

مثل حق پہناں وہم پيداست ايں

زندہ پايندہ و گويا است ايں

اندر و تقدير ہائے غروب شرق

سرعت انديشہ پيدا کن چوں برق

با مسلماں گفت جاں بر کف نبہ

ہر چہ از حاجت فزوں داري بدہ!

آفريدي شرع و آئينے دگر!

اندکے بانورِ  قرآنش نگر!

از بم وزير حيات آگہ شوي

ہم ز تقدير حيات آگہ  شوي

(جاويد نامہ)

(ترجمہ:

کس نے سياہ فاموں کو يد بيضا بخشا تھا (اور) قيصر و کسريٰ سے نجات کي خوش خبري کس نے سنائي ؟

 قرآن کے بغير شير (قوت) رو بہي (مکاري) ہے- قرآن کا فقر شاہي کي بنياد ہے-

 قرآن کا فقہ ذکر اور فکر کا اختلاط ہے ذکر کے بغير فکر کامل نہيں ہوتي-

 قرآن، آقاۆں کے لئے موت کا پيغام ہے اور بے سر و سامان لوگوں کے لئے دستگير (مددگار) ہے-

اپنے رزق کو زمين سے حاصل کرنا روا ہے، يہ زمين بندوں کي متاع اور اس کا مالک خدا ہے-

 جب قرآن کا نقش اس دنيا پر ثبت ہوا تو پوپ (مذہبي اجارہ داري) اور کاہن کے نقوش مٹ گئے-

 جو کچھ ميرے دل ميں پوشيدہ ہے ميں صاف صاف بيان کر رہا ہوں (يہ قرآن) صرف ايک کتاب نہيں بلکہ کچھ اور ہي چيز ہے-

 جب يہ جان ميں اتر جاتا ہے تو جان کچھ اور ہو جاتي ہے- جب جان بدل جاتي ہے تو جہاں بدل جاتا ہے-

 يہ حق کي طرح پنہاں بھي ہے اور ظاہر بھي، گويا يہ ہميشہ زندہ و پائندہ ہے-

 اسي کے اندر مشرق و مغرب کي تقديريں ہيں- (انہيں سمجھنے کے لئے ) بجلي کي طرح تيز فکر پيدا کر-

 اس نے مسلمان سے کہا جان ہتھيلي پر رکھ لو اور جو تمھاري ضرورت سے زيادہ ہو دوسروں کو دے دو-

 تم نے ايک نئي شرع و آئين کو پيدا کيا، اب تم کو چاہئے کہ انھيں ذرا نورِ قرآن کي روشني ميں ديکھو-

 (تاکہ ) تم زندگي زير و بم (انقلابات) کو سمجھ سکو اور تقدير حيات کا راز تم پر عياں ہو- )

(ماخوذ از ’’نقوشِ اقبال‘‘ دوسرا ايڈيشن- مطبوعہ مجلس تحقيقات و نشرياتِ اسلام، لکھنو- 1972ء)

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

 سيد جمال الدين کو دور بين نظر تھے