• صارفین کی تعداد :
  • 3597
  • 10/16/2012
  • تاريخ :

امام محمد تقي  (ع) کي سياسي سيرت

امام محمد تقی  (ع)

امام جواد  (ع) کي سياسي حکمت عملي امامت کے فروغ کا باعث بني اور مقام امامت کيلئے انکي شائستگي اور لياقت کو ثابت کر گئي-

شيعيان خاص طور پر علويان جن کي سربراہي ائمہ معصومين (ع) کے ہاتھوں ميں تھي بني اميہ کے دور حکومت اور منصور عباسي اور مہدي عباسي کي حکومت ميں شديد ترين حالات سے روبرو تھے- شيعہ تحريکيں مسلسل اور يکے بعد ديگرے اٹھتي تھيں اور حکومت کي جانب سے کچل دي جاتي تھيں- شيعہ ہونا بہت بڑا جرم بن چکا تھا جسکي پاداش ميں قيد کر دينا، قتل کر دينا، تمام اموال کا ضبط کر لينا اور انکے گھروں کو مسمار کر دينا حکومت کا قانوني حق بن چکا تھا- ائمہ معصومين عليھم السلام بھي تقيہ کي حالت ميں تھے اور شيعيان کے ساتھ انکے روابط مخفيانہ طور پر انجام پاتے تھے-

امام موسي کاظم  (ع) کے بعد جب ائمہ معصومين عليھم السلام کي زير نگراني سياسي فعاليت کے نتيجے ميں شيعيان ايک حد تک طاقتور ہو چکے تھے، وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ اظہار وجود کر سکيں اور انکي تعداد بھي کافي حد تک بڑھ چکي تھي- لہذا شيعيان کئي سال تک ائمہ معصومين عليھم السلام سے کھل کر اظہار عقيدت کرنے کي طاقت سے محروم ہونے کے بعد اب ايسے مرحلے تک پہنچ چکے تھے کہ ائمہ معصومين عليھم السلام کي اجتماي منزلت اس حد تک بلند ہو چکي تھي کہ خلفاي بني عباس اعلانيہ طور پر ان سے اپني دشمني کا اظہار کرنے سے کتراتے تھے- دوسري طرف بني عباس ائمہ معصومين عليھم السلام کو اپنے حال پر بھي نہيں چھوڑنا چاہتے تھے تاکہ وہ مکمل آزادي کے ساتھ اپني مرضي سے جو چاہيں انجام دي سکيں- لہذا انہوں نے فيصلہ کيا کہ ائمہ معصومين عليھم السلام کو اپنے قريب رکھيں تاکہ انکي سرگرميوں پر کڑي نظر رکھ سکيں-

چنانچہ مامون عباسي نے امام علي رضا  (ع) کو مدينہ سے طوس آنے پر مجبور کر ديا- يہي چيز علويان کے اجتماعي اثر و رسوخ ميں اضافے کا باعث بني- امام علي رضا  (ع) خراسان ميں مستقر ہوئے اور آپ اور اپکے فرزند امام محمد تقي  (ع) کے وکلاء کا نيٹ ورک اسلامي سرزمين کے کونے کونے تک پھيل گيا- شيعيان اس قابل ہو گئے کہ ہر سال حج کے موقع پر مکہ مکرمہ اور مدينہ منورہ ميں امام جواد  (ع) سے براہ راست ملاقات کر سکيں-

امام محمد تقي  (ع) کے ماننے والے بغداد، مدائن، عراق اور مصر تک پھيل گئے اور خراسان اور ري دو بڑے شيعہ مراکز کے طور پر ظاہر ہوئے- شيعيان امام جواد  (ع) کے وکلاء کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے کے علاوہ حج کے موقع پر خود امام  (ع) سے بھي ملاقات کرتے رہتے تھے اور ان سے براہ راست رابطہ قائم رکھتے تھے- قم شيعوں کے بڑے اور اصلي مراکز ميں سے ايک تھا- قم کے شيعوں نے بھي امام محمد تقي  (ع) کے ساتھ براہ راست رابطہ برقرار کر رکھا تھا- دوسري طرف قم کے لوگ مامون عباسي کي حکومت کي مخالفت کا بھي اظہار کرتے تھے- نوبت يہاں تک پہنچي کہ مامون عباسي نے علي ابن ھشام کي سربراہي ميں قم پر فوجي حملے کا حکم دے ديا ليکن اسے پسپائي کا سامنا کرنا پڑا- اسي طرح فارس، اہواز، سيستان اور خراسان ميں مختلف شيعہ گروہ وجود ميں آئے جو امام جواد  (ع) سے مکمل رابطے ميں تھے-

مامون عباسي جو بني عباس کا سب سے زيادہ چالاک اور دورانديش حکمران تھا خود کو علم اور آزادي بيان کا حامي ظاہر کرتا تھا جسکا مقصد اقتدار پر اپنے قبضے کو باقي رکھنا اور ايسے حقائق کو مسخ کرنا تھا جو بني عباس کي سياسي بقا کيلئے خطرہ تھے- مامون عباسي امام محمد تقي  (ع) کے دوران امامت ميں حکمفرما تھا اور انکي زندگي کا بڑا حصہ مامون کے دوران حکومت ميں گزرا- مامون عباسي نے شيعہ تفکر پر مکمل غلبہ پانے کيلئے امام علي رضا  (ع) اور امام محمد تقي  (ع) کے دوران امامت ميں بہت سے اقدامات انجام ديئے- اس نے کوشش کي کہ گذشتہ حکمرانوں کے رويے کے برعکس ائمہ معصومين عليھم السلام کے ساتھ نئے انداز سے پيش آئے اور انہيں اپنے زمانے کے نامور دانشور اور علماء حضرات کے ساتھ علمي مناظروں کي دعوت ديتا تھا- وہ چاہتا تھا کہ امام علي رضا  (ع) اور امام محمد تقي  (ع) جن کي عمر بھي کم تھي کو کسي طرح علمي ميدان ميں شکست سے دوچار کر سکے- مامون عباسي ائمہ معصومين عليھم السلام کي علمي شخصيت کو خدشہ دار کر کے تشيع کو جڑ سے اکھاڑ پھينکے کي سازشوں ميں مصروف تھا-

امام علي رضا  (ع) کي شہادت کے بعد بھي بني عباس کي شيعہ مخالف سازشيں جاري رہيں- مامون عباسي کا طريقہ يہ تھا کہ اس نے ہر شخص پر ايک جاسوس مقرر کر رکھا تھا اور يہ کام وہ اپني کنيزوں سے ليا کرتا تھا- وہ جسکي جاسوسي کرنا چاہتا تھا اسے اپني ايک کنيز تحفے کے طور پر پيش کرتا تھا، يہي کنيز اسکے بارے ميں تمام معلومات مامون عباسي تک پہنچاتي رہتي تھي- لہذا امام محمد تقي  (ع) کي سرگرميوں پر نظر رکھنے کيلئے مامون عباسي نے انکي شادي اپني بيٹي ام الفضل سے کروا دي جيسا کہ امام علي رضا  (ع) کے دور ميں بھي انکي شادي اپني دوسري بيٹي ام حبيبہ سے کروا چکا تھا-

بشکریہ:  اسلام ٹائمز

شعبۂ  تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

 امام محمد تقي عليہ السلام  کے اخلاق واوصاف عادات و خصائل