• صارفین کی تعداد :
  • 2444
  • 2/17/2013
  • تاريخ :

اپنے راستوں کا انتخاب ہمارے ليۓ لازمي ہے يا اختياري ؟

قرآن

«الَّذِينَ يسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ»

بعض علماء کرام انسان کو ڈراتے ہيں ؟  انسان عقل و فکر ہے اور عقيدہ آزاد ہے - اس کا جواب کيا ہے ؟

زير بحث آيت کي وضاحت درج ذيل ہے -

«وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ * الَّذِينَ يسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ» (الزمر، 17 - 18)

ترجمہ :  اور جن لوگوں نے طاغوت کي بندگي سے اجتناب کيا اور اللہ کي طرف رجوع کيا ان کے ليے خوشخبري ہے، پس آپ ميرے ان بندوں کو بشارت دے ديجيے،  جو بات کو سنا کرتے ہيں اور اس ميں سے بہتر کي پيروي کرتے ہيں، يہي وہ لوگ ہيں جنہيں اللہ نے ہدايت دي ہے اور يہي صاحبان عقل ہيں -

الف : اگر ہم( خاص طور پر  قرآن کے ) زير بحث موضوع کے درست مفہوم کو سمجھنا چاہيں  تو پہلے اس بات کا خيال رکھيں کہ  مختلف مباحث کو آپس ميں نہ ملائيں کيونکہ اس سے  ذہن ميں پيچيدگياں پيدا ہوتي ہيں  اور ٹھيک نتيجہ سامنے نہيں آتا ہے -

اس آيت کا مفہوم ، معني اور مقصد ايک طرح کا  بيانيہ  ہے  اور  علماء اور دانشمندوں کا طرز عمل اور گفتار ايک طرح کا دوسرا بيانيہ ہے - يہ بھي حقيقت ہے کہ ہر عقل مند انسان خود کو اور دوسروں کو  خطا ، ضرر ، زوال اور ہلاکت سے ڈراتا ہے  اور خاص طور وہ عالم  اور عامل جس کو ديني  علوم اور قرآن کي سمجھ بوجھ ہو -

ب - خدا  تعالي نے اس آيت ميں يہ نہيں فرمايا ہے کہ  : " ان لوگوں کے ليۓ خوشخبري ہے جو کسي حرف کو سنتے ہيں اور پھر  ان ميں سے انتخاب کرتے ہيں "  کيونکہ ايسي روش  نہ تو صحيح  اور معقول ہے اور نہ ہي اس کا کوئي نتيجہ نکلتا ہے - حتي کہ ايک دانشمند  اور محقق  بھي سينکڑوں سالوں  ميں سب کے سب اقوال  اور  نظريات کا مطالعہ نہيں کر سکتا ہے  اور ايک عام آدمي کے ليۓ تو يہ بہت ہي مشکل بات ہے -  اس ليۓ خدا تعالي کي ذات  ايسي  نصيحت  نہيں کرتي ہے جس کا کوئي نتيجہ نہ نکلتا ہو -

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحریریں:

انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار