• صارفین کی تعداد :
  • 4133
  • 4/12/2013
  • تاريخ :

اصلاح معاشرہ ميں خواتين کا اہم کردار

حضرت فاطمہ (س)

يہ قرآني حقيقت ہے جس سے کسي کو انکار کرنے کي جرات نہيں ہو سکتي کہ بحيثيت جنس کے عورت کے مقابلہ ميں مرد کا پلہ بھاري ہے- جيسا کہ قرآن مجيد ميں ارشاد الہي ہے- الرجل قوامون علي النساء يعني عورت پر مرد کو طاقت غلبہ حاصل ہے- نيز اسلامي قانون کے لحاظ سے ايک مرد کے مقابلہ ميں دو عورتون کي گواہي لازمي ہے- ايک عورت کي گواہي بالکل نا کافي ہے-

مگر اس کے ساتھ ساتھ يہ بھي نہيں بھولنا چاہيئے کہ عمل کے اعتبار سے مرد وعورت ميں کوئي فرق نہيں ہے- جيسا کہ قرآن مجيد ميں اعلان پروردگار ہے- من عمل صالحا من ذکر او انثي و ہو مومن فلنحيينہ حيوہ طيبہ (النحل آيت 97) يعني مرد ہو يا عورت جو شخص بھي نيک کام کرے گا وہ ايمان دار بھي ہو تو ہم اسے پاک و پاکيزہ زندگي بسر کرائيں گے-

اور يہ عمل کا ہي وزن تھا کہ تاريخ گواہ ہے کہ جب کبھي بھي حضرت فاطمہ (س) بارگاہ رسالت مآب (ص) ميں تشريف لاتي تھيں تو مرسل اعظم سر تا پا ان کي تعظيم کے ليے اٹھ کھڑے ہوتے تھے- جس کو شاعر نے يوں بيان کيا ہے-:

گراني پلہ عصمت ميں اتني تھي کہ ديکھا ہے

پے تعظيم اٹھ جاتا تھا وزن مرسل اعظم (ص)

يوں تو تاريخ بشريت ميں کتني ہي ايسي خواتين گزري ہيں جنہوں نے اصلاح معاشرہ اور مذہب و ملت کي تعمير و ترقي ميں شاندار، نمايان اور تاريخ ساز اہم کردار ادا کيا ہے- اور ميدان عمل ميں مردوں کے مقابلے ميں خداداد صلاحيت و قابليت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپني فتح و فوقيت کا پرچم لہرايا ہے- اور ہر قوم و مذہب کے افراد ان کي تعريف، توصيف بيان کرتے ہيں- جيسا کہ زنان نمونہ کے طور پر:

آسيہ، آمنہ، فاطمہ بنت اسد، فاطمہ زہرا (س)، فاطمہ معصومہ، مريم، نرجس و ---- -

شعبہ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

جان کي توصيف حبيب (ص) کي زبان سے