• صارفین کی تعداد :
  • 2844
  • 8/16/2013
  • تاريخ :

خمس کے حقدار لوگ

خمس کے حقدار لوگ

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ اوّل)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ دوّم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ سوّم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ چہارم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ پنجم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ ششم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں(حصّہ ہفتم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ ہشتم)

اس وقت دنيا ميں جتنے شيعہ موجود ہيں اگر وہي اپنا خمس نکاليں اور اس کا نصف حصہ سادات کو ديں اور اس کا حساب لگايا جائے تو ايک عظيم بجٹ شمار ہوگا - جبکہ سارے سادات بھي فقير نہيں ہيں انکے درميان کچھ ثروت مند بہي ہيں جنکے اوپر خمس واجب ہے - لہذا اس عظيم بجٹ کا مصرف کيا ہوگا ؟ کيا يہ سادات کے لئے امتياز نہيں ہے ؟ اسکے علاوہ اگر ايک دوسرے مسئلہ کو مد نظر رکہيں تو يہ اعتراض دوسري شکل ميں ہوتا ہے کہ جب ہم احکام شرعيہ کي کتابوں کو پڑھتے ہيں اور روايات اور شيعہ فقہ کا مطالعہ کرتے ہيں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر سيد کو خمس نہيں ديا جا سکتا بلکہ ايسے سيد کو خمس ديں جسکے اندر سارے شرائط موجود ہوں جيسے وہ متجاہر بالفسق (علي الاعلان گناہ کرنے والا ) نہ ہو ، پيسے کو حرام طريقے سے خرچ نہ کرتا ہو اور فقير ہو يعني اتنا مال نہ ہو کہ زندگي گذار سکے اور نہ ہي اسے حاصل کرنے کي طاقت رکھتا ہو -

لہذا اگر کوئي ايسا سيد ہو جو اتني طاقت و قدرت رکھتا ہو کہ کاروبار کے ذريعہ اپني زندگي معمول کے مطابق چلا سکے تو اسکو خمس نہيں ديا جائے گا - پس ہر سرمايہ دار اور طاقتور سادات کو خمس نہيں ديا جا سکتا بلکہ سيد فقير جنکي تعداد بہت کم ہے صرف انہيں کو خمس ديا جائے گا -

يہاں پر ايک دوسرا اعتراض يہ ہوتا ہے کہ اگر ہر فقير غير سيد کو زکات دينا چاہيں تو ايک دفعہ ميں اتنا ديں کہ وہ مالدار ہو جائے دوسرے لفظوں ميں يوں سمجھيئے کہ ايک شخص سيد نہيں ہے ليکن فقير ہے اور خمس کے علاوہ رقم موجود ہے مثلا زکات کي رقم ہے تو کيا ہم اکٹھا اس کو مثلا ايک لاکھ روپئے دے سکتے ہيں جبکہ اس کا سالانہ خرچ صرف دس ہزار روپئے ہے اور بقيہ نوے (90) ہزار روپئے اسکا سرمايہ قرار پاتا ہے ،تو جواب ديا گيا کہ ہاں ! ايسا کيا جاسکتا ہے -

سادات کے بارے ميں کيا مسئلہ ہے ؟ کيا ايک سيد کو اکٹھا اتنا خمس ديا جا سکتا ہے جو اسکے سالانہ خرچ سے زيادہ ہو اور بقيہ وہ اپنے لئے سرمايہ قرار دے تو کہا گيا کہ ايسا نہيں کر سکتے -

اس طرح کے شرائط سادات کے بارے ميں ہيں کہ جو شخص خمس لے وہ فقير ہو ، اسے صرف سالانہ اخراجات کي مقدار بہر خمس ديا جا سکتا ہے، اسکو خمس کي رقم سے غني نہيں کيا جا سکتا - لہذا ہم يہاں ايک دوسري مشکل ميں گرفتار ہو گئے ،ابہي تک ہم کہتے تہے کہ اگر دنيا کے لوگ خمس دينے لگيں اور اسکي رقم سادات کو دے ديں تو وہ ارب پتي بن جائيں گے ،يہاں پر اچانک ہمارا سامنا ايک نئے قانون سے ہوا کہ خمس کي رقم سرمايہ داروں اور طاقتور لوگوں کو نہ ديں بلکہ ان ميں جو فقير ہيں ان کو ديں وہ بہي صرف سال بہر کے خرچ کے مقدار بہر ،لہذا اس خمس کے بجٹ کا کوئي مصرف نہيں رہا - ہم کس طرح سے اس کو خرچ کريں ؟  (جاري ہے )

 

بشکريہ مطالعات شيعہ ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

شيعوں کے صفات

شيعوں پر وھابيوں کے اعتراضات