• صارفین کی تعداد :
  • 3936
  • 7/14/2013
  • تاريخ :

روزہ، ايثار اور انسان دوستي

روزہ، ایثار اور انسان دوستی

انسان ايک سماجي موجود ہے اور انسان کامل وہ ہے جو اپنے وجود کے تمام پہلۆوں ميں نشوونما کرے- روزہ، انسان کے دوسرے پہلۆوں کے ساتھ ساتھ اس کے معاشرتي اور سماجي پہلو کو بھي پرورش ديتا ہے کيونکہ روزہ معاشرے کے افراد کے درميان مساوات اور برابري کا درس ديتا ہے- جب ہم اس مذہبي حکم کي تعميل کرتے ہيں، معاشرے کے مالدار اور صاحبان ثروت محرومين اور بھوکوں کي صورت حال کا واضح طور پر ادراک کرتے ہيں اور اس ادراک کے بعد نتيجہ اخذ کرتے ہيں کہ غرباء اور مساکين اور محرومين کے مسائل کي طرف توجہ دينے کي ضرورت ہے- اگر بھوکوں کي طرف توجہ کو حسي اور عيني جامہ پہنايا جائے تو روزہ زيادہ مۆثر ہوگا اور روزہ اس اہم سماجي موضوع کو حسي اور عيني صورت عطا کرتا ہے- اس معاشرتي پہلو کو پروان چڑھانے کے بعد انسان بني نوع انسان کے مسائل سے بےرخي اختيار نہيں کرتا اور غربت اور بھوک و افلاس جيسے معاشرتي دکھوں کو محسوس کرتا ہے اور سعدي شيرازي کے اس کلام کا مصداق قرار پاتا ہے کہ:

    بنى‏آدم اعضاى يكديگرند            كه در آفرينش ز يك گوهرند                                        

  چو عضوى به درد آورد روزگار          دگر عضوها را نماند قرار

بني آدم ايک دوسرے کے جسم و جان کے اعضاء ہيں اور خلقت ميں ايک ہي پيکر سے ہيں

جب زمانہ دکھ و درد دے اي عضو کو تو دوسرے اعضاء بھي چين سے نہ رہ سکيں گے

قابل توجہ ہے کہ اگر دنيا کے مالدار ممالک اور دولتمند افراد سال کے چند روز روزہ رکھين اور بھوک کا ذائقہ چکھ ليں، تو کيا پھر بھي دنيا ميں اتنے زيادہ بھوکے اور مفلس رہيں گے؟! کيا کروڑوں انسان اشياء خورد و نوش کي قلت اور قحط کا شکار ہوسکيں گے؟!

 

 

 

منبع: ويژه ماه مبارك رمضان؛ گروه مۆلفان؛ نهاد نمايندگي مقام معظم رهبري در دانشگاه ها

ترجمہ: محمد حسین حسینی


متعلقہ تحریریں:

روزہ کي اہميت اور فضيلت کے بارے ميں چند احاديث

نماز ادا کرنے کا صحيح حق