• صارفین کی تعداد :
  • 4771
  • 1/24/2014
  • تاريخ :

توبہ کي کوئي شرط نہيں ہے !

توبہ کی کوئی شرط نہیں ہے !

اگر کوئي شخص حقيقت ميں اپنے گناہوں پر پشيمان ہو جاۓ اور اس کي پشيماني گناہوں سے کنارہ کشي کے ساتھ ہو  خواہ اس کے گناہ کتنے ہي زيادہ اور بڑے ہوں ، اسے يقين سے يہ بات ذہن ميں رکھني چاہيے کہ اگر وہ سچے دل سے خدا تعالي سے توبہ کرے تو اس کے گناہ معاف ہو جائيں  گے اور اس سے بڑي يہ بات ہے کہ اس کي برائيوں اور کوتاہيوں کو  نيکيوں ميں تبديل کر ديا جاۓ گا - توبہ زندگي کے کسي بھي حصہ ميں کي جا سکتي ہے کيونکہ توبہ کا دروازہ کھولنے والے کا ايک يہ بھي لطف رہا ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کبھي بھي اپنے بندوں پر بند نہيں کيا کيونکہ وہ يہ کبھي نہيں چاہيگا کہ اس کا بندہ دنيا سے معصيت کار اٹھے:’’ولا يفتح لعبد باب التوبہ و تعلق عنہ باب المغفرہ‘‘آيا اس نے توبہ کا دروازہ کھول نہيں رکھا ہے کہ اجابت کا دروازہ بند کر دے گا يعني اگر توبہ کا دروازہ کھولا ہے تو اجابت کي ضمانت بھي اس قادر مطلق پروردگار نے لي ہے -وہ تو منتظر ہے کہ کب ميرا بندہ مجھ کو پکارے اور ميں اس کي آواز پر لبيک کہوں-

قرآن ميں ارشاد باري تعالي ہے کہ

إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

ترجمہ : مگر جنہوں نے توبہ کي اور ايمان لائے اور نيک عمل انجام ديا تو اللہ ان کي برائيوں کو نيکيوں ميں بدل ديتا ہے اور اللہ تو بڑا غفور و رحيم ہے -

توبہ ايک ايسي حالت کا نام ہے جس ميں انسان اپنے برے اعمال پر شرمندہ ہوتا ہے اور  اس کا ضمير اسے اس کے گناہوں پر ملامت کرتا ہے اور اس حالت کے ليۓ کوئي خاص شرط نہيں ہے - اگر قرآن ميں توبہ کے متعلق شرائط کا ذکر ہے تو وہ ايک اخلاقي سلسلے پر مشتمل نکات ہيں  جن ميں گناہگار انسان اپني بري عادت کي وجہ سے اپنے گناہ سے توبہ کرنے ميں کامياب نہيں ہو پاتا ہے  - ايسي حالت ميں انسان کا ضمير مردہ ہو جاتا ہے اور اسے احساس ہي نہيں ہوتا ہے کہ وہ کس راستے پر جا رہا ہے -  ( جاري ہے )

گناہوں سے توبہ ميں جلدي کريں

خدا تعالي کا يہ اپنے بندے پر احسان ہے کہ جب بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو خدا تعالي اسے فورا سزا نہيں ديتا ہے بلکہ انسان کو مہلت دي جاتي ہے کہ وہ اپنے  عمل پر پشيمان ہو اور خدا سے اس کي  بخشش چاہے -

نہج البلاغہ ميں ذکر ہے کہ

’’اس کا ايک احسان يہ بھي ہے کہ عذاب و سزا ميں تعجيل سے کام نہيں ليتا-‘‘ ( نامہ31-1ظ )

توبہ کے ارکان  دل ميں ندامت ، زباني استغفار ، اصلاح کا عزم  اور حقيقي معنوں ميں اصلاح کي طرف رغبت  ہے جس سے انسان کي توبہ قبول ہوتي ہے  ليکن توبہ کا بنيادي رکن وہي دلي شرمندگي ہوتي ہے کہ اگر وہ واقعي ہو تو اس کے پيچھے باقي ارکان بھي پورے ہو جاتے ہيں يعني اگر صرف دل ميں گناہ سے  ندامت پيدا ہو جاۓ تو انسان کي توبہ قبول ہو جاتي ہے - اس ليۓ ضروري ہے کہ اپنے گناہ پر شرمندگي اختيار کرتے ہوۓ حقيقي معنوں ميں توبہ کي جاۓ -

شريعت کي نظر ميں توبہ قبول ہونے کے چار بنيادي نکات ہيں -

1- گناہ کو برا جانتے ہوے ترک کرنا- ’’ترک الزنب لقبحہ‘‘

2- گناہ کي انجام دہي پر پشيمان ہونا- ’’والندم علي مافرط منہ‘‘

3- دوبارہ گناہ کي طرف نہ پلٹنا- ’’والفرمۃ علي ترک المعاورۃ‘‘

4- ترک شدہ وظيفہ کي قضا کرنا- ’’وتدارک ما امکنہ ان تبدارک من الاعمال بالاعادہ‘‘ (مفردات راغب 72)

 بعض حالات ميں  ايسا انسان خود کو گناہگار تصوّر ہي نہيں کرتا ہے - ايسي حالت ميں گناہ کرنے والے کو ندامت نہيں ہوتي ہے اور وہ مسلسل گناہ کا مرتکب ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ جھوٹي قسم  کي ندامت کرکے خود کو تسلي ديتا رہتا ہے -

نہ جانے کتنے گناہ ايسے ہيں جو نزول رحمت و نعمت کا سلسلہ روک ديتے ہيں، انسان پر نعمت و رحمت کے دروازے بند ہو جاتے ہيں، انسان خوشگوار خوشبختي کي حالت سے نکل کر مصيبتوں اور بدبختي کي منزل ميں آ جاتا ہے، انسان کے گناہ بڑھتے جاتے ہيں يہاں تک کہ خدا کي جانب سے نازل ہونے والي ساري نعمتوں کا سلسلہ رک جاتا ہے جہاں دور دور تک اميد کي کوئي کرن نظر نہيں آتي، سارے راستوں اور تدبيروں کا سدباب ہو جاتا ہے- ايسي ناگوار کيفيت و حالت ميں بھي باب توبہ کھلا رہتا ہے اور بندے کو اميد کي روشني ديتا رہتا ہے- يہ تو خدا کي ايک خاص عنايت ہے کہ تمام دروازوں کے بند ہونے کے باوجود بھي توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے- ( جاري ہے )

 

ترجمہ: سید اسداللہ ارسلان

 


متعلقہ تحریریں:

خدا سے ‌رابطے کے ليۓمفيد باتيں

خدا تعالي کے ساتھ رابطہ پيدا کرنے کے 20 سادہ اور عملي راستے