• صارفین کی تعداد :
  • 4587
  • 8/18/2014
  • تاريخ :

امام حسين (عليہ السلام) کيوں فراموش نہيں ہوتے؟ ( حصّہ ششم )

يا حسين بن علي (ع)

امام حسين (عليہ السلام) کي عزاداري کيوں کرتے ہيں؟

کہتے ہيں اگر امام حسين(عليہ السلام)کامياب ہوئے تو پھر جشن کيوں نہيں مناتے؟ گريہ کيوں کرتے ہيں؟ کيا يہ گريہ اس بڑي کاميابي کے ساتھ صحيح ہے؟

جو لوگ اس طرح کے اعتراض کرتے ہيںيہ لوگ ”‌فلسفہ عزاداري“ کو  نہيں جانتے اور اس کوذلت آميز گريہ سے تعبير کرتے ہيں-

”‌گريہ“ اور آنکھوں سے اشک کے قطروں کا جاري ہونا جو کہ انسان کے دل کا دريچہ ہے، اس گريہ کي چار قسميں ہيں:

1- خوشي اور شوق کا گريہ

کسي ايسي ماں کا گريہ جو اپنے گمشدہ فرزند کو کئي سال بعد ديکھ کر کرتي ہے ، يا کسي پاک دل عاشق کا بہت عرصہ کے بعد اپنے معشوق سے ملنے کے بعد گريہ کرنا خوشي اور شوق کا گريہ کہلاتا ہے-

واقعہ کربلا کا اکثر وبيشتر حصہ شوق آفرين اور ولولہ انگيز ہے ان لوگوں کي ہدايت، فداکاري، شجاعت آزادمردي اور ان اسير خواتين و مرد کي شعلہ ور تقريريں ، سننے والوں کي آنکھوں سے اشک شوق کا سيلاب جاري ہو جائے تو کيا يہ شکست کي دليل ہے؟

کيايہ گريہ شکست کي دليل ہے؟

2- شفقت آميز گريہ

انسان کے سينہ کے اندر جو چيز موجود ہے وہ ”‌دل“ہے ”‌پتھر“نہيں!اور يہ دل انسان کي محبت کي امواج کا خاکہ کھينچتا ہے ، جب کسي يتيم کو اس کي ماں کي آغوش ميں ديکھتے ہيں کہ وہ سردي کے زمانے ميں اپنے باپ کے فراق ميں جان دے رہا ہے تو دل ميں ايک ہل چل مچ جاتي ہے اوراشکوں کا سيلاب جاري کرکے ان امواج کے خطوط کو چہرہ کے ذريعہ ظاہر کيا جاتا ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا دل زندہ اور انساني محبت و شفقت سے سرشار ہے-

اگر کربلا کے حادثہ ميں ايک شير خوار بچہ اپنے باپ کي آغوش ميںجان ديدے اور خون کے سيلاب کے درميان ہاتھ پير چلائے اور اس حادثہ کو سن کر دل دھڑکنے لگے اور دل اپنے آتشي شراروں کے اشکوں کي صورت ميںخارج کرے تو کيا يہ کمزوري او رناتواني کي دليل ہے يا حساس قلب کے بيدار ہونے کي دليل ہے؟ ( جاري ہے )

 


متعلقہ تحریریں:

فرزند رسول حضرت امام حسين عليہ السلام کي حيات طيبہ پر ايک نظر

امام حسين (ع) کي لازوال تحريک