• صارفین کی تعداد :
  • 3606
  • 2/16/2015
  • تاريخ :

پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری (حصہ دوم)

پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ دوم)

زبان کی تعریف کرتے ہوئے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ زبان مخصوص قواعد پر مبنی نظام کی حامل ہے جو استانوں کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے۔ جبکہ ادب ایک فن ہے جس کی اساس زبان ہی پر رکھی گئی ہے۔ یہی زبان ہے جو ایک نظام کی حامل ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو دیگر اقرار کے لیے اسے سمجھنا یا یاد رکھنا ممکن نہ ہوتا۔ البتہ ادبی زبان کی اہمیت کے بارے میں روسی زبان شناس اشکولفسکی(۲) اور چیک ادیب موکارفسکی اور حاروانک کے نظریات ہمیت رکھتے ہیں۔ ھاروانک کے خیال میں زبان شناسی کے دو پہلو نمایاں ہیں۔ جنھیں وہ ’’خودکار‘‘ اور ’’ممتاز سازی‘‘ کا نام دیتا ہے۔ ’’ممتاز سازی‘‘ کے ضمن میں اسلوب بیان کو تبدیل کرنے کے لیے زبان کے مختلف عناصر سے کچھ یوں مدد لی جاتی ہے کہ وہ معمول سے دور ہو جاتی ہے۔ شاعری فارسی ادب کا اہم ترین حصہ ہے۔ اور شعرا نے ہمیشہ معیاری زبان استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ ڈاکٹر شفیق کدکنی نے زبان کی موسیقی کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے ’’ممتاز سازی‘‘ کو ادبی زبان کے عوامل سے الگ خیال کیا ہے۔ یعنی وزن، قافیہ اور ردیف شاعری کی زبان کو عامیانہ زبان سے دور لے جاتا ہے۔
آئینی تحریک سے قبل فارسی شعرا ممتاز سازی کے پہلو کو اہمیت دیتے تھے اور یوں ادبی زبان کا ادراک عوام الناس کے لیے مشکل تھا۔ لیکن بعدازاں ایران میں فکری تبدیلیوں کے زیر اثر شعرا اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی زبان کوچہ و بازار کی زبان سے جس قدر نزدیک ہو گی انھیں اسی قدر مقبولیت بھی مل پائے گی۔
فارسی نثر میں بھی صورتحال کچھ یوں ہی تھی یعنی مسجع اور متکلف تحریریں ماضی کا قصہ بننے لگیں۔ قبل ازایں مشکل عربی کلمات، مترادفات اور مشکل انداز بیان کو کسی ادبی تحریر کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اب عامیانہ الفاظ فارسی ادب کا حصہ بنے لگے۔ جملے مختصر بنائے جانے لگے اور ابلاغ پر توجہ دی جانے لگی۔ نثر سادہ یا نثر مُرسل عام آدمی کو بھی فارسی ادب سے قریب لے آئی اور یوں فارسی ادب محض اہل دربار یا پڑھے لکھے لوگوں تک محدود نہ رہا۔ سید محمد علی جمالزادہ نے برلن سے ’یکی بودیکی نبود‘ کے زیر عنوان کتاب شائع کرکے ایرانی ادب کی تاریخ میں سادہ نثر نویسی کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ نیمایوشیج نے بھی کلاسیکی فارسی شاعری کے قوالب کو توڑتے ہوئے فارسی شاعری کو نئی پوشاک پہنا دی۔ اور اس کی تفہیم عوام الناس کے لیے آسان کر دی۔ نیمایوشیج کی مشہور نظم ’’افسانہ‘‘ کو ایران کی نئی شاعری کا آغاز خیال کیا جاتا ہے۔ یہ نظم ۱۹۲۲ء میں شائع ہوئی اور اسے معاصر قاری شاعری کا سرچشمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے چونکہ نئی نسل کے تقریباً عام شعرا نے فکری اور فنی اعتبار سے ’افسانہ‘ سے اثرات قبول کیے ہیں۔
اگرچہ پروین اعتصامی کلاسیکی اسلوب و قوالیب سے کبھی دور نہیں ہو پائیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے سادہ زبان میں شعر کہے جو عام لوگوں کے لیے قابل فہم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ترقی پسند تحریک کا بھی ساتھ دیا۔ ان کی کوشش تھی کہ ادبی زبان کو عامیانہ زبان سے قریب لایا جائے تاکہ ادبی اور عوام کے درمیان پایا جانے والا فاصلہ کم ہو جائے۔ بلاشبہ پروین نے اپنے افکار کو بیان کرنے سے پہلے طویل عرصہ غور و فکر اور سوچ بچار میں صرف کیا تاکہ وہ اپنے افکار و خیالات کو منفرد اور مسجم انداز میں پیش کر سکے۔ پروین کی بیشتر معروف نظمیں مثنویات، قصائد اور قطعات پر مشتمل ہیں۔ سادہ اسلوب کی بنا پر نہیں سبک خراسانی کا پیرو سمجھا جاتا ہے۔ اگرچ اہن کے انداز بیان میں سبک عراقی کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیںَ بہرحال کلاسیکی قوالب کے استعمال میں انھوں نے استدانہ مہارت دکھائی ہے۔ بلکہ ان کی غیر معمولی مہارت کے سبب بعض افراد ان کی شاعری کو کسی مرد کی تخلیق خیال کرتے رہے۔ چونکہ ان کے گمان میں کوئی ایرانی شاعرہ اس قدر پختہ انداز میں شعر کہنے کی استعداد نہیں رکھتی۔ البتہ پروین نے ان شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے شاعری میں اپنے عورت ہونے کا برملا اظہار کیا۔
ماروی خودفر راہ سعادت نتامنیتم
پیران رہ ، یماننمو دند راہ راست
از غبار فکر باطل ، پاک باید داشت دل
تابداند دیو ، کاین آئینہ جای گردنیست
مرد پندارد پروین را ، چہ برقی راحصل قفل
این معما گفتہ نیکو تر ، کہ پروین فردنیست

(جاری ہے)


متعلقہ تحریریں:

پروين اعتصامي

پروین اعتصامی کی بیماری اور موت