• صارفین کی تعداد :
  • 3374
  • 2/21/2015
  • تاريخ :

پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ نہم)

پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ نہم)

پروین لوگوں کی بدحالی اور کسمپرسی پر اظہار افسوس کرتی ہیں اور لوگوں کو حصولِ علم کے لیے ترغیب دلاتی ہیں۔ جیسا کہ ’’درخست پر ہی بر کے زیر عنوان نظم میں سرو کے درخت کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ بالآخر اسے کاٹ دیا جائے گا اور تنور میں جلا ڈالا جائے گا۔ راوی اُسے جوب دیتا ہے کہ چونکہ تو کوئی پھل نہیں دیتا اسی لیے ایسے انجام سے دو چار ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ شاعر کی پریشانی کا سیب درخت نہیں ہے۔ پروین دراصل معاشرے کے جاہل افراد کے لیے نالاں ہیں۔ اور ان کے مستقبل کی پیش بینی کرکے ہونے ناصحانہ انداز اپناتی ہیں۔
خندید بروشعلہ کہ ازدست کہ نالی
ناچیزی تو کرد بدینگو نہ تورا خوار

آن شاخ کہ سربرکشد و میوہ نیارد
فرجام بجز سوختش نیست سزوار

جزدانش و حکمت نبود میوی انسان
ای میوہ فروش ھنر ، این نکتہ و بازار

از گفتہ ی ناکرہ ی بیھودہ چہ حامل
کردار نکوکن ، کہ نہ سودئیست ز گفتار


آسان گذر دگر شب و روز و مہ و سالت
روز عمل و مزد ، بود کار تو دشوار

از روز تحسین اگرت سنگ گران بود
دور فلکت پست نمی کرد و سبکسار

امروز ، سر افرازی دی راھنری نیست
می یا بد از امسال سخن راند ، نہ از یار
پروین خود حقیقت پسند ہیں۔ اسی لیے مخاطبین کو بھی اسی کی دعوت دیتی ہے۔
تابودت شمع حقیقت بہ دست
راہ تو ھر جا کہ روی روشناست

شعر من آئینہ کردار توست
ناید از آئینہ بجر حرف راست

روشنی اندوز کہ دل را خوشی
کعرفت
ایک اور جگہ علم اور فن کو خوش نصیبی کا کیمیا سمجھتی ہیں۔ وہ خود کو طلا اور علم کو معدن سے تشبیہ دیتی ہے۔ جس میں روح ایک محنتی مزدور کی طرح کام کرتی ہے۔
گویند عارفان ھنر و علم کیمیاست
وان مس کہ گشت ھمسر این کیمیا طلاست

چون معدنست علم و درآن روح کارگر
پویند علم و جان سخن ، کاہ و کھر بباشت
پروین علم و معرفت کے حصول کے لیے سبھی کو دعوت عام دیتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کام جوانی ہی میں ممکن ہے۔
زجوی علم ، دل را آب دہ تا برلب جوئیی
زخوان عقل ، جان راسیز کن تابر سرخوانی

برای عرق گشتن اندریں دریا نیفتادی
مکن فرصت تبہ ، غواص مردواردی و برچالی
پروین نے ہمیشہ ہی کوشش کی کہ اپنی شاعری میں دلیری کے ساتھ زندگی کے مسائل کی نشاندہی کرے۔ شاید ہی کسی اور شاعر نے پروین کی سی دلیری کا مظاہرہ کیا ہو۔ لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ انھوں نے یہ دلیری اور بہادری اپنے باپ ہی سے سیکھی ہے۔ باپ کی وفات کے بعد پروین جذباتی طورپر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے اور اس بھری دنیا میں خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتی ہے۔
پدر آن تیشہ کہ برخاک تو زد دست اجل
تیشہ ای بود کہ شد باعث ویرانی من
مہ گردون ادب بودی و در خاک شدی
خاک ، زندان کو گشت ، ای مہ زندانی من
از ندانستن من ، دزد قضا آگہ بود
چو تو رابرد ، بخندید بہ نادانی من
گنج خود خواندیم و رفتی و بگذاشتم
ای عجب ، بعد تو باکیستا نگہبانی من!
کسی سرپرست کے بغیر زندگی کہیں زیادہ دشوار ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر ایک ایسی عورت کے لیے جو بڑی ہو کر بھی خود کو اپنے باپ کی معصوم بیٹی ہی تصور کرتی ہو۔ ان کا باپ ہی وہ واحد شخص تھا جو اس دنیا میں ان کا جذباتی سہارا تھا اور زندگی کے کٹھن حالات میں وہ اپنے والد ہی پر بھروسہ کر سکتی ہیں۔ ان کی شادی کا نتیجہ بھی طلاق کی صورت میں نکلا۔ اور دکھوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور آہستہ آہستہ اچانک موت کا وقت بھی قریب آتا گیا۔ اسی موت جو انسان سے اس کی زندگی کی مال و متاع چھین لیتی ہے۔ لیکن موت پروین کی آخری پناہ گاہ تھی جس کا انتظار پروین کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایک ایسی عورت تھی جنھوں نے معاشرتی دکھوں کو دیکھا اور اس موضوع پر لب کشائی کی۔ وہ خود اپنی موت کی پیش بینی کرتے ہوئے کہتی ہیں:
اینکہ خاک سیھش بالین است
اختر چرخ ادب پروین است

گرچہ جز تلخی از ایام ندید
ھرچہ خواھی سخش شیریں است

صاحب آن ھمہ گفتار امروز
سائل فاتحہ و یاسین است

دوستان بہ کہ زوی یاد کنند
دل بی دوست دلی غمگین است

خاک دریدہ بسی جان فرسات
سنگ برسینہ ہسی سنگین است

بیند این بستر و عبرت گرید
ھرکہ راچشم حقیقت بین است

ھرکہ باشی و زھر جا برسی
آخرین منزل ھستی این است

آدمی ھر چہ توانگر باشد
چون بدین نقطہ رسد مسکین است

اندر آنجا کہ قضا حملہ کند
چارہ تسلیم و ادب تمکین است

زادن و کشتن و پنھان کردن
دھر را رسم و رہ دیرین است

خرم آن کس کہ در این محنت گاہ
خاطری را سبب تسکین است (ختم شد)

 

حواشی
۱۔ مکتب ھای ادبی، رضا سید حسین
۲۔ v.shklovsky
۳۔ aristotlc, the works, vol xi, 1447
۴۔ افلاطون ، دورۂ آثار، ج۲، ص۹۶۲
۵۔ حمید دھباشی، یاد نامہ ی پروین، ص۱۴۷
۶۔ چشمہ روشن، غلام حسین یوسفی
۷۔ مکتب ھای ادبی، ج اوّل۔ ص۲۷۷


متعلقہ تحریریں:

پروین اعتصامی کی بیماری اور موت

پروين اعتصامي