• صارفین کی تعداد :
  • 7297
  • 3/4/2016
  • تاريخ :

کیا غیر خدا سے شفاعت طلب کی جا سکتی ہے ؟

بسم الله الرحمن الرحیم

بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انسان کو صرف خدا کی عبادت کرنی چاہیۓ اور اسی پر توکل کرتے ہوۓ حق عبودیت کو انجام دیتے رہنا چاہیۓ اور ایسی حالت میں اگر کسی شخص کی وفات ہو جاتی ہے تب اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت حاصل ہو گی اور اس کے برعکس جو وظیفہ عبودیت کو ترک کر دے اور خدا کے مقابلے پر اتر آئے اور بہت سے امور کو خدا کے علاوہ انجام دے غیر خدا سے توکل رکھے اور اس غیر خدا پر امید قائم رکھے جبکہ وہ کام خدا کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں دے سکتا اور اس طرح غیر خدا سے مدد لینا، پناہ مانگنا اور یہ مشرکوں کے اعمال اور ان کے عقاید ہیں ۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ طلب شفاعت کو توحید کی ضد اور شرک کے مساوی قرار دیا ہے اس بیان کے ساتھ کہ اگر شفاعت خدا کے ہاتھ میں ہے تو خدا موحد کی شفاعت کرے گا اور جو خدا کے علاوہ کسی اور سے شفاعت کی درخواست کرے وہ موحد نہیں ہے بلکہ وہ مشرک ہے اور شفاعت اسکو نہیں مل سکتی۔
واضح ہے کہ یہاں پر بھی غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے کیونکہ دلیل کو مدعا بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ سامنے والا شخص دھوکہ کھا جائے جبکہ سوال یہ ہے کہ اس طرح کا شخص کیونکر مشرک ہے ؟اصل میں ہماری بحث یہی ہے کہ اگر کوئی شفاعت کرے تو کیا وہ مشرک ہے یا نہیں ؟پھر موضوع کو مسلم طور پر ثابت کرے اور دلیل کے طور پرپیش کرے کہ اگر کوئی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مخاطب ہو کر یہ کہے: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) میری شفاعت کر دیجئے یا پھر عربی زبان میں اس طریقہ سے کہے : یا رسول اللہ ادع لی یا استغفر لی۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میرے لئے دعا کیجئے یا میری لئے استغفار کر دیجئے تو اس میں کیا مضائقہ ہے ؟
جبکہ خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زندگی میں لوگ آپ کی خدمت میں آتے تھے اور آپ سے استغفارکی درخواست کرتے تھے اور یہ بات قرآن مجید میں صاف طور پر ذکر ہوئی ہے ”ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاوٴک فاستغفرو اللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوااللہ توابا رحیما“(سورہ نساء ، آیت۶۴) یہ آیہ کریمہ تنہا رسول اسلام سے طلب استغفار کو غلط نہیں کہتی بلکہ رسول سے طلب استغفا ر کی تشویق دلاتی ہے ۔ ( جاری ہے )

 


متعلقہ تحریریں:

غدير خم اور لفظ " مولا "
مولا کا مفہوم امام سے اعلي  ہے