• صارفین کی تعداد :
  • 9348
  • 10/7/2016
  • تاريخ :

غدیر کے بعد عاشورا کیوں؟ ( حصّہ سوّم )

محرم

 انہوں نے ان دونوں راستوں کو اختیار کیا، حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کو بھی خانہ نشین کر دیا اور جہالت، کفر اور منافقت کے سیاہ پردے لوگوں کے دل کی آنکھوں پر لٹکا دیئے اور یہ دونوں راستے، ایک دوسرے کے بغیر ان کے مقصد کو پورا نہیں کرتے تھے، کیونکہ اگر لوگ اپنی جہالت کے قیدی نہ ہوتے تو ہرگز غدیر کے روشن دن میں مقرر کردہ امام اور خلیفہ برحق کی خانہ نشینی پر تاب نہ لاتے اور نیز اگر اسلام کی بقاء خطرہ میں نہ ہوتی اور حیدرکرار کو ذوالفقار اٹھانے کی فرصت مل جاتی تو کسی آنکھ اور دل پر جہالت، کفر اور منافقت کا پردہ چاک ہونے سے نہ بچ سکتا، یعنی غدیر کے دن جیسی روشنی ہر آنکھ اور دل پر اس طرح سے جلوہ فگن ہوتی کہ حقیقی صاحب منبر، اپنی مسند پر بیٹھ جاتا اور نفس رسول (ص) اسی طرح اسلامی احکام اور سنت نبوی کو دنیا بھر میں جاری کرتا جیسے خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاری کیا کرتے تھے اور غدیر میں مبارک دینے والوں کو اپنا کینہ، دشمنی اور منافقت کو اچھالنے کا موقع ہی نہ ملتا، لہذا نہ دربتولؑ جلتا، نہ بنت رسولؐ کا پہلو شکستہ ہوتا، نہ حسنینؑ کی والدہ شہید ہوتیں، نہ محسنؑ شہید ہوتے، نہ حسن مجتبیؑ کا جگر زہر سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر باعث شہادت بنتا، نہ امیرالمومنینؑ سے عداوت کے شعلے سیدالشہدا٫ حسینؑ ابن علیؑ کو شہید کرنے کے لئے میدان کربلا میں بھڑک اٹھتے۔
مگر عرصہَ دراز سے طویل شیطانی آرزووَں نے دنیا کی محبت کو ناپاک دل کی اتنی گہرائی تک پہنچا دیا تھا کہ وفات پیغمبرؐ کے فوراً بعد ہی انکار غدیر کا چھپا ہوا خنجر، خیانت کی نیام سے نکل کر آیت تطہیر کے مصادیق پر یکے بعد دیگرے چلنے لگا، پہلی ضربت ہی اس طرح چلی کہ پہلو کو شکستہ کرتی ہوئی عرش و فرش کو لرزا دیا، دوسری ضربت فرق سر پر چلی تو محراب عبادت کو مظلومیت کے خون سے سرخ کر دیا، تیسری ضربت نے سبط اکبر کے جگر کے ٹکڑوں سے طشت کو بھر دیا، چوتھی ضربت نے پیاسے مظلوم پر ظلم کی انتہا کر دی جس معصوم کو تنہائی کے عالم میں تیر و تلوار اور نیزہ و خنجر سے مارا گیا۔ اسی طرح ان ضربتوں کا سلسلہ، انہی معصوم اماموں پر جاری رہا جن کی امامت کا اعلان غدیر خم میں نبیوں کے سردار نے کیا تھا۔ ( جاری ہے )