• صارفین کی تعداد :
  • 99
  • 10/17/2017
  • تاريخ :

السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيدِ السَّلَامُ عَلَى أَسِيرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيلِ الْعَبَرَات

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی جہاں اتنے عظیم امتحان الٰہی میں کامیاب ہوئی اور اپنے کردار و گفتار سے رہتی دنیا کو ایک دو نہیں ہزارہا درس دے کر گئی جن سے تا قیام قیامت فیض حاصل کیا جاتا رہے گا، وہیں معبود نے آپ کو کچھ خاص چیزوں سے نوازا، جس میں مشکل سے کوئی شریک ملتا ہے۔ یہاں ان میں سے بعض کو روایات کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کا کوئی شریک نہیں

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی جہاں اتنے عظیم امتحان الٰہی میں کامیاب ہوئی اور اپنے کردار و گفتار سے رہتی دنیا کو ایک دو نہیں ہزارہا درس دے کر گئی جن سے تا قیام قیامت فیض حاصل کیا جاتا رہے گا، وہیں معبود نے آپ کو کچھ خاص چیزوں سے نوازا، جس میں مشکل سے کوئی شریک ملتا ہے۔ یہاں ان میں سے بعض کو روایات کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے۔

۔ خاک، خاک شفا
حضرت امام صادق علیہ السلام :عنْ زَيْدٍ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ: كُنْتُ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ عِصَابَتِنَا بِحَضْرَةِ سَيِّدِنَا الصَّادِقِ ع فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ تُرْبَةَ جَدِّيَ الْحُسَيْنِ ع شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ وَ أَمَاناً مِنْ كُلِّ خَوْفٍ فَإِذَا تَنَاوَلَهَا أَحَدُكُمْ فَلْيُقَبِّلْهَا وَ يَضَعْهَا عَلَى عَيْنَيْهِ وَ لْيُمِرَّهَا عَلَى سَائِرِ جَسَدِه‏۔ 
زید ابی اسامہ سے روایت ہے کہ میں کچھ بزرگوں کے ہمراہ امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا، امام صادق (ع) نے ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا: بیشک خدا نے میرے جد حسین(ع) کی تربت کو ہر مرض کے واسطے شفا، اور ہر طرح کے ڈر اور خوف سے امان قرار دیا ہے، جب کبھی تم میں سے کوئی اس تربت کو حاصل کرے اس کا بوسہ دے ،اپنی آنکھوں پر رکھے، اور پھر اپنے پورے بدن پہ پھیرے۔
(الأمالي (للطوسي)، ص318، المجلس الحادي عشر؛ بشارة المصطفى لشيعة المرتضى (ط - القديمة)،ص217۔)
 خدا نے خانہ کعبہ یا قبر مطہر نبی اکرم(ص) کی تربت کو بھی شفا قرار نہیں دیا، فقط تربت امام حسین(ع) ہر انسان کے لیے شفا ہے۔

۔ عزاداری
اہل بیت کرام(ع ) میں کسی کے لئے اس قدر عزاداری  اور گریہ کے سلسلہ سے تاکید نہیں ملتی جتنی تاکید امام حسین(ع) کے سلسلہ میں ہے، آپ(ع)  کی عزاداری و گریہ کی تاکید میں بہت سی روایتیں ہیں منجملہ:
امام رضا علیہ السلام: یا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع
اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو۔
(وسائل الشيعة ، ج‏14، ص 502، باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛ الأمالي( للصدوق)،ص 130، المجلس السابع و العشرون۔)

دوسری جگہ فرمایا:
فعَلَى مِثْلِ الْحُسَيْنِ فَلْيَبْكِ الْبَاكُونَ فَإِنَّ الْبُكَاءَ يَحُطُّ الذُّنُوبَ الْعِظَامَ ثُمَّ قَالَ ع كَانَ أَبِي ع إِذَا دَخَلَ شَهْرُ الْمُحَرَّمِ لَا يُرَى ضَاحِكاً وَ كَانَتِ الْكِئَابَةُ تَغْلِبُ عَلَيْهِ حَتَّى يَمْضِيَ مِنْهُ عَشَرَةُ أَيَّامٍ فَإِذَا كَانَ‏ يَوْمُ‏ الْعَاشِرِ كَانَ‏ ذَلِكَ‏ الْيَوْمُ‏ يَوْمَ‏ مُصِيبَتِهِ‏ وَ حُزْنِهِ وَ بُكَائِه‏
رونے والوں کو حسین جیسے پر آنسو بہانا چاہیے کیونکہ  یہ رونا گناہان کبیرہ کو گرا دیتا ہے  پھر فرمایا: جب محرم کا مہینہ آتا تھا، میرے والد (حضرت موسی بن جعفر ع) کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا جاتا تھا، ان پر حزن و اندوہ طاری ہوتا تھا یہاں تک کہ دس دن گذر جائیں، دسویں محرم جب ہوتی تھی وہ دن ان کے لئے مصیبت، حزن و اندوہ نالہ و فغاں کا دن ہوتا تھا۔
(أمالي الصدوق‏، ص111؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏44، ص284، باب 34 ثواب البكاء على مصيبته۔۔۔)

حضرت امام صادق علیہ السلام :
كلُ‏ الْجَزَعِ‏ وَ الْبُكَاءِ مَكْرُوهٌ‏ سِوَى‏ الْجَزَعِ‏ وَ الْبُكَاءِ عَلَى‏ الْحُسَيْنِ‏ (عَلَيْهِ السَّلَامُ(
ہر طرح کا گریہ و فغاں مکروہ ہے سوائے امام حسین علیہ السلام پر گریہ و بکا کے۔
(الأمالي (للطوسي)،ص162، المجلس السادس؛ وسائل الشيعة، ج‏3، ص282، 87 - باب جواز البكاء۔)

۔ زیارت کی شدید تاکید
حضرت امام صادق علیہ السلام: عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ ع عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَوْ أَنَ‏ أَحَدَكُمْ‏ حَجَ‏ دَهْرَهُ‏ ثُمَ‏ لَمْ‏ يَزُرِ الْحُسَيْنَ‏ بْنَ‏ عَلِيٍ‏ ع لَكَانَ تَارِكاً حَقّاً مِنْ حُقُوقِ اللَّهِ وَ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ ص لِأَنَّ حَقَّ الْحُسَيْنِ ع فَرِيضَةٌ مِنَ اللَّهِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ.
اگر تم میں کوئی پوری عمر حج انجام دے لیکن حسین بن علی(ع ) کی زیارت کے لئے نہ جائے اس نے حقوق اللہ اور حقوق رسول اللہ میں سے کوئی حق ضرور چھوڑا ہے اس لئے کہ حسین(ع) کا حق  اللہ کی جانب سے تمام مسلمانوں پر واجب  قرار دیا گیا ہے۔
(كامل الزيارات،ص122، الباب الثالث و الأربعون؛ كتاب المزار- مناسك المزار(للمفيد)،  ص27، باب وجوب زيارة الحسين؛ وسائل الشيعة،ج‏14، ص428، باب كراهة ترك زيارة الحسين ع ..... ص : 428)

موسی بن قاسم خضرمی کہتے ہیں: منصور کے دور حکومت کے شروع کے دنوں میں، امام صادق (ع) نجف تشریف لائے اور  فرمایا، راستے پر جائے اور اس شخص کا  انتظار کرے جو قادسیہ کی جانب سے آرہا ہے، اور جب وہ آجائے تو اسے امام(ع) کا سلام پہونچائے اور امام کی خدمت میں لائے۔
وہ شخص جسکا نام موسی تھا، کہتا ہے: حکم کی تعمیل کے لئے راستے میں بیٹھ گیا، سورج کی جھلسا دینے والی گرمی میں مایوسی کی حد تک اس مسافر کا انتظار کیا اور آخرکار وہ آگیا۔ حضرت امام صادق(ع) کا پیغام پہونچانے کے بعد اسے آپ(ع) کے خیمے کی طرف لے گیا اور خود ان لوگوں سے دور اس طرح کہ ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہا تھا خیمہ کے در پر کھڑا ہوگیا، لیکن ان کی آواز سن رہا تھا؛ وہیں پر بیٹھ گیا۔
امام صادق (ع) نے اس پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟
جواب دیا: یمن کے دوردراز علاقہ سے۔
اس وقت امام(ع) نے اس کے علاقہ کی باتیں اور خصوصیات اس سے بتائیں اور اس نے تائید کی، اس کے بعد آپ(ع) نے فرمایا: یہاں پر آنے کا مقصد کیا ہے؟
کہا: امام حسین (ع) کی زیارت کے لئے آیا ہوں۔
فرمایا: فقط زیارت کے لئے؟
کہا: ہاں! فقط اپنے آقا کی زیارت اور ان کی قبر اطہر کے کنارے نماز پڑھنے اور قریب سے درود پڑھنے کے لئے۔۔۔
امام (ع) نے فرمایا: ان کی زیارت  کے عوض کون سے اجر و ثواب کے امید رکھتے ہو؟
کہا: ہم ان کی زیارت سے مال و اولاد میں برکت، سلامتی اور طول عمر اورحاجتوں کے پوری ہونے کی امید رکھتے ہیں۔
فرمایا: اے یمنی بھائی! کیا میں اللہ کے فضل سے اس ثواب میں اور اضافہ کردوں؟
کہا: یابن رسول اللہ(ع) اضافہ فرما دیں۔
فرمایا: حضرت ابا عبداللہ (ع) کی زیارت کا ثواب حضرت رسول خدا(ص) کے ساتھ انجام دیے گئے حج مقبول کے برابر ہے۔
وہ متعجب ہوا۔
امام(ع) نے فرمایا: جی ہاں! بلکہ رسول خدا (ص) کے ساتھ دو حج مقبول کے برابر۔
اس کے استعجاب میں مزید اضافہ ہوگیا۔
اور امام صادق (ع) ثواب میں اضافہ کرتے چلے گئے یہاں تک کہ تیس پاک و پاکیزہ اور مقبول اور رسول خدا (ص) کے ساتھ انجام دیئے گئے حج کے برابر۔
(كامل الزيارات،ص162، الباب السادس و الستون؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏98، ص37۔)

حضرت امام حسین (ع) کی زیارت کی تاکید اور فضیلت و ثواب کے سلسلہ میں  کثیر تعداد میں روایتیں موجود ہیں، اور محبین اہل بیت (ع) نے اسی کے پیش نظر زیارت کا خوب اہتمام بھی کیا، اس کی ایک مثال متوکل کا زمانہ ہے، وہ قبر امام حسین (ع) کو اپنی حکومت کے خلاف سمجھتا تھا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا لوگ دن و رات زیارت کے لئے جارہے ہیں۔ لہذا اس نے کربلا کے آس پاس سکیورٹی لگا دی، اس کے کارندے جیسے ہی دیکھتے تھے کوئی زیارت کے لئے جارہا ہے گرفتار کرلیتے تھے۔
(بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج45، ص397۔)

۔ ائمہ کرام(ع) آپ (ع) کی ذریت میں سے ہیں

محمد بن مسلم کہتےہیں: سمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع وَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ع يَقُولَانِ‏ إِنَ‏ اللَّهَ‏ عَوَّضَ‏ الْحُسَيْنَ ع مِنْ قَتْلِهِ أَنَّ الْإِمَامَةَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِي تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ.
میں نے امام باقر و امام صادق علیہما  السلام سے سنا کہ فرماتے ہیں امام حسین (ع) کو شہادت کے عوض یہ صلہ عنایت فرمایا ہے کہ  امامت کو ان کی ذریت اور اولاد میں قرار دیا۔ ان کی تربت میں شفا قرار دی۔ (مٹی کھانا حرام ہے سوائے قبر امام حسین کی مٹی کے)۔ ان کی قبر کے پاس دعا مستجاب ہے۔
(وسائل الشيعة،ج‏14، ص423، 37 - باب تأكد استحباب زيارة الحسين۔)

۔ وہ تنہا امام جس کا سر تن سے جدا ہوا
امام حسین (ع) وہ امام ہیں جن کا سر ان کی زندگی میں ان کے تن سے جدا کیا گیا۔
امام رضا(ع) نے فرمایا: یا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ‏ ذُبِحَ‏ كَمَا يُذْبَحُ‏ الْكَبْشُ‏
اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو کہ  انہیں اس طرح ذبح  کیا گیا جیسے گوسفند(بھیڑ) کو کیا جاتا ہے۔
(وسائل الشيعة ، ج‏14، ص 502،  باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛  الأمالي( للصدوق)،ص 130،  المجلس السابع و العشرون۔)

۔ سب سے عظیم یوم مصیبت
عبد اللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں: قلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ ع يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ كَيْفَ‏ صَارَ يَوْمُ‏ عَاشُورَاءَ يَوْمَ مُصِيبَةٍ وَ غَمٍّ وَ جَزَعٍ وَ بُكَاءٍ دُونَ الْيَوْمِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَتْ فِيهِ فَاطِمَةُ ع وَ الْيَوْمِ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ الْيَوْمِ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ الْحَسَنُ ع بِالسَّمِّ فَقَالَ إِنَّ يَوْمَ الْحُسَيْنِ ع أَعْظَمُ مُصِيبَةً مِنْ جَمِيعِ سَائِر الْأَيَّامِ وَ ذَلِكَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكِسَاءِ الَّذِي كَانُوا أَكْرَمَ الْخَلْقِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى كَانُوا خَمْسَةً فَلَمَّا مَضَى عَنْهُمُ النَّبِيُّ ص بَقِيَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ ع فَكَانَ فِيهِمْ لِلنَّاسِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَتْ فَاطِمَةُ ع كَانَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ لِلنَّاسِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَى مِنْهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع كَانَ لِلنَّاسِ فِي الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَى الْحَسَنُ ع كَانَ لِلنَّاسِ فِي الْحُسَيْنِ ع عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ ع لَمْ يَكُنْ بَقِيَ مِنْ أَهْلِ الْكِسَاءِ أَحَدٌ لِلنَّاسِ فِيهِ بَعْدَهُ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَكَانَ ذَهَابُهُ كَذَهَابِ جَمِيعِهِمْ كَمَا كَانَ بَقَاؤُهُ كَبَقَاءِ جَمِيعِهِمْ فَلِذَلِكَ صَارَ يَوْمُهُ أَعْظَمَ مُصِيبَةً 
امام صادق (ع) سے عرض کیا: یوم عاشورا کیسے یوم مصیبت، یوم غم اور یوم گریہ و بکا ہوا، جبکہ وفات رسول، یا جس دن حضرت زہرا(س) شہید ہوئیں یا جس روز امیرالمومنین(ع) شہید ہوئے یا جس دن امام حسن(ع) مسموم ہوئے ایسا نہ ہوا؟  فرمایا: شہادت امام حسین کے دن کی مصیبت تمام ایام کی مصیبت سے بڑھ کر ہے،اس لئے کہ اصحاب کساء خدا کے نزدیک تمام مخلوقات سے باعظمت ہیں، اور وہ پانچ لوگ تھے، جب پیغمبر (ص) دنیا سے گئے، ابھی امیر المومنین(ع)، فاطمہ(س)، حسن و حسین(ع) زندہ تھے تاکہ لوگوں کے واسطے تسلی خاطر بنیں، جب حضرت زہرا(س) رخصت ہوئیں، امیرالمومنین(ع)، حسن، حسین(ع) باحیات تھے تاکہ لوگوں کو تسلی ملے اور صبر اختیار کریں، جب امیرالمومنین(ع) لوگوں کے درمیان سے گئے، حسن و حسین تسلی کے لئے موجود تھے، جب حسن (ع) شہید ہوئے پھر بھی حسین (ع ) موجود تھے لیکن جب حسین(ع) قتل ہوئے اب اصحاب کساء میں سے کوئی نہیں بچا تھا جو لوگوں کے لئے تسلی کا سبب بنے، لہذا ان کے(امام حسین (ع) کے) نہ ہونے پر ایسا تھا جیسے سب کے سب چلے گئے، جیسے ان کے رہنے پر ایسا تھا جیسے سب کے سب موجود ہوں، اسی بنا پر ان کی شہادت کا دن، سب سے عظیم مصیبت کا دن قرار پایا۔
(علل الشرائع، ج‏1، ص225،162 باب العلة التي من أجلها صار يوم عاشوراء أعظم الأيام مصيبة؛ الفصول المهمة في أصول الأئمة،ج‏3، ص412، باب 136 - ان يوم عاشوراء اعظم الايام مصيبة۔)

حضرت امام باقر علیہ السلام زیارت عاشورا میں فرماتے ہیں:
مصِيبَةٍ مَا أَعْظَمَهَا وَ أَعْظَمَ‏ رَزِيَّتَهَا فِي الْإِسْلَام‏
مصیبت عاشورا اسلام اور زمین و آسمان میں اتنی عظیم مصیبت ہے جس سے  بڑی کوئی مصیبت نہیں۔
(كامل الزيارات، ص177؛ مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص775؛ زاد المعاد - مفتاح الجنان، ص235، الفصل الثاني في زيارة الإمام الحسين عليه السلام۔)

۔ حضرت امام حسین (ع) پر تمام موجودات نے گریہ کیا
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ما بَكَتِ‏ السَّمَاءُ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا إِلَّا عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع فَإِنَّهَا بَكَتْ عَلَيْهِ أَرْبَعِينَ يَوْماً.
یحیی بن زکریا کے بعد آسمان نہیں رویا سوائے حسین بن علی (ع) پر، آسمان حسین بن علی(ع)پر چالیس دن تک رویا۔
(كامل الزيارات،ص90، الباب الثامن و العشرون۔)

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے: إنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ لَمَّا قُتِلَ بَكَتْ عَلَيْهِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ السَّبْعُ وَ مَا فِيهِنَّ وَ مَا بَيْنَهُنَّ وَ مَنْ يَتَقَلَّبُ فِي الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ مَا يُرَى وَ مَا لَا يُرَى‏
جس وقت امام حسین (ع) کو قتل کیا گیا ساتوں زمین و آسمان، اور جو چیز ان میں ہے اور جو بھی ان کے درمیان ہے اور جو جنت و جہنم میں ہے جو چیز دکھائی دیتی ہے اور جو دکھائی نہیں پڑتی سب نے گریہ کیا۔
(بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏45، ص202۔)

حضرت امام عصر عج: بكَتْهُ‏ السَّمَاءُ وَ مَنْ فِيهَا وَ الْأَرْضِ وَ مَنْ عَلَيْهَا
ان پر آسمان اور جو اس میں ہے اور زمین اور جو اس پر ہے سب نے گریہ کیا۔
(مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص826؛ زاد المعاد - مفتاح الجنان، ص51، الفصل الثالث في الفضائل و الأعمال المختصة بأول الشهر حتى الأيام البيض۔)

۔ سر بریدہ کا قرآن کی تلاوت کرنا
امام حسین(ع) کی وہ تنہا ذات گرامی ہے جس نے شہادت کے بعد بھی کلام کیا ہے، امام(ع) کا سر نوک نیزہ پر تھا اور آیت کی تلاوت کررہا تھا:
عنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّهُ قَالَ مُرَّ بِهِ عَلَيَّ وَ هُوَ عَلَى رُمْحٍ وَ أَنَا فِي غُرْفَةٍ فَلَمَّا حَاذَانِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ ’’أَمْ‏ حَسِبْتَ‏ أَنَ‏ أَصْحابَ‏ الْكَهْفِ‏ وَ الرَّقِيمِ كانُوا مِنْ آياتِنا عَجَباً‘‘ فَقَفَّ وَ اللَّهِ شَعْرِي وَ نَادَيْتُ رَأْسُكَ وَ اللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَعْجَبُ وَ أَعْجَب‏
زید بن ارقم کہتے ہیں وہ سر جو نیزہ پر تھا میرے سامنے سے گذارا گیا  اور میں بالاخانے پر تھا تبھی جب  وہ سر قریب پہونچا ،میں نے اسے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا: ’’ام حسب ان اصحاب۔۔۔۔‘‘  تو بخدا  ڈر سے میرے بدن کے روئیں کھڑے ہوگئے، اور  میں نے چلا کر کہا: خدا کی قسم یابن رسول اللہ (ص) آپ کا سر تو اس (واقعہ اصحاب کہف) سے بھی حیرت ناک ہے۔
(الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج‏2، ص117؛ إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص252؛ الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف، ج‏1، ص83۔)

۔ اربعین
اربعین (چہلم) اور زیارت اربعین بھی تمام ائمہ میں فقط امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے یہاں تک کہ زیارت اربعین مومن کی علامتوں میں سے شمار کی گئی ہے۔
امام حسن عسکری (ع)سے روایت ہے:  علَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ‏ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏.
پانچ چیزیں مومن کی علامتوں میں سے ہیں ۱۔ اکیاون رکعت نماز پڑھنا۔ ۲۔ زیارت اربعین۔ ۳۔ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا۔ ۴۔  سجدہ میں پیشانی کو خاک پر رکھنا۔ ۵۔ بلند آواز سے بسم اللہ کہنا۔
(كتاب المزار- مناسك المزار(للمفيد)،ص53، باب فضل زيارة الأربعين؛ تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏6، ص52؛ مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص788۔)

اس کے علاوہ خود زیارت اربعین اگر کسی امام کے لئے منصوص ہے تو وہ حضرت سید الشہداء کی ذات گرامی ہے۔

۔ السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيدِ السَّلَامُ عَلَى أَسِيرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيلِ الْعَبَرَات.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی جہاں اتنے عظیم امتحان الٰہی میں کامیاب ہوئی اور اپنے کردار و گفتار سے رہتی دنیا کو ایک دو نہیں ہزارہا درس دے کر گئی جن سے تا قیام قیامت فیض حاصل کیا جاتا رہے گا، وہیں معبود نے آپ کو کچھ خاص چیزوں سے نوازا، جس میں مشکل سے کوئی شریک ملتا ہے۔ یہاں ان میں سے بعض کو روایات کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے۔
۔ خاک، خاک شفا
حضرت امام صادق علیہ السلام :عنْ زَيْدٍ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ: كُنْتُ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ عِصَابَتِنَا بِحَضْرَةِ سَيِّدِنَا الصَّادِقِ ع فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ تُرْبَةَ جَدِّيَ الْحُسَيْنِ ع شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ وَ أَمَاناً مِنْ كُلِّ خَوْفٍ فَإِذَا تَنَاوَلَهَا أَحَدُكُمْ فَلْيُقَبِّلْهَا وَ يَضَعْهَا عَلَى عَيْنَيْهِ وَ لْيُمِرَّهَا عَلَى سَائِرِ جَسَدِه‏۔ 
زید ابی اسامہ سے روایت ہے کہ میں کچھ بزرگوں کے ہمراہ امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا، امام صادق (ع) نے ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا: بیشک خدا نے میرے جد حسین(ع) کی تربت کو ہر مرض کے واسطے شفا، اور ہر طرح کے ڈر اور خوف سے امان قرار دیا ہے، جب کبھی تم میں سے کوئی اس تربت کو حاصل کرے اس کا بوسہ دے ،اپنی آنکھوں پر رکھے، اور پھر اپنے پورے بدن پہ پھیرے۔
(الأمالي (للطوسي)، ص318، المجلس الحادي عشر؛ بشارة المصطفى لشيعة المرتضى (ط - القديمة)،ص217۔)
 خدا نے خانہ کعبہ یا قبر مطہر نبی اکرم(ص) کی تربت کو بھی شفا قرار نہیں دیا، فقط تربت امام حسین(ع) ہر انسان کے لیے شفا ہے۔
۔ عزاداری
اہل بیت کرام(ع ) میں کسی کے لئے اس قدر عزاداری  اور گریہ کے سلسلہ سے تاکید نہیں ملتی جتنی تاکید امام حسین(ع) کے سلسلہ میں ہے، آپ(ع)  کی عزاداری و گریہ کی تاکید میں بہت سی روایتیں ہیں منجملہ:
امام رضا علیہ السلام: یا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع

اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو۔
(وسائل الشيعة ، ج‏14، ص 502، باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛ الأمالي( للصدوق)،ص 130، المجلس السابع و العشرون۔)
دوسری جگہ فرمایا:
فعَلَى مِثْلِ الْحُسَيْنِ فَلْيَبْكِ الْبَاكُونَ فَإِنَّ الْبُكَاءَ يَحُطُّ الذُّنُوبَ الْعِظَامَ ثُمَّ قَالَ ع كَانَ أَبِي ع إِذَا دَخَلَ شَهْرُ الْمُحَرَّمِ لَا يُرَى ضَاحِكاً وَ كَانَتِ الْكِئَابَةُ تَغْلِبُ عَلَيْهِ حَتَّى يَمْضِيَ مِنْهُ عَشَرَةُ أَيَّامٍ فَإِذَا كَانَ‏ يَوْمُ‏ الْعَاشِرِ كَانَ‏ ذَلِكَ‏ الْيَوْمُ‏ يَوْمَ‏ مُصِيبَتِهِ‏ وَ حُزْنِهِ وَ بُكَائِه‏
رونے والوں کو حسین جیسے پر آنسو بہانا چاہیے کیونکہ  یہ رونا گناہان کبیرہ کو گرا دیتا ہے  پھر فرمایا: جب محرم کا مہینہ آتا تھا، میرے والد (حضرت موسی بن جعفر ع) کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا جاتا تھا، ان پر حزن و اندوہ طاری ہوتا تھا یہاں تک کہ دس دن گذر جائیں، دسویں محرم جب ہوتی تھی وہ دن ان کے لئے مصیبت، حزن و اندوہ نالہ و فغاں کا دن ہوتا تھا۔
(أمالي الصدوق‏، ص111؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏44، ص284، باب 34 ثواب البكاء على مصيبته۔۔۔)
حضرت امام صادق علیہ السلام :
كلُ‏ الْجَزَعِ‏ وَ الْبُكَاءِ مَكْرُوهٌ‏ سِوَى‏ الْجَزَعِ‏ وَ الْبُكَاءِ عَلَى‏ الْحُسَيْنِ‏ (عَلَيْهِ السَّلَامُ(
ہر طرح کا گریہ و فغاں مکروہ ہے سوائے امام حسین علیہ السلام پر گریہ و بکا کے۔
(الأمالي (للطوسي)،ص162، المجلس السادس؛ وسائل الشيعة، ج‏3، ص282، 87 - باب جواز البكاء۔)
۔ زیارت کی شدید تاکید
حضرت امام صادق علیہ السلام: عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ ع عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَوْ أَنَ‏ أَحَدَكُمْ‏ حَجَ‏ دَهْرَهُ‏ ثُمَ‏ لَمْ‏ يَزُرِ الْحُسَيْنَ‏ بْنَ‏ عَلِيٍ‏ ع لَكَانَ تَارِكاً حَقّاً مِنْ حُقُوقِ اللَّهِ وَ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ ص لِأَنَّ حَقَّ الْحُسَيْنِ ع فَرِيضَةٌ مِنَ اللَّهِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ.

اگر تم میں کوئی پوری عمر حج انجام دے لیکن حسین بن علی(ع ) کی زیارت کے لئے نہ جائے اس نے حقوق اللہ اور حقوق رسول اللہ میں سے کوئی حق ضرور چھوڑا ہے اس لئے کہ حسین(ع) کا حق  اللہ کی جانب سے تمام مسلمانوں پر واجب  قرار دیا گیا ہے۔
(كامل الزيارات،ص122، الباب الثالث و الأربعون؛ كتاب المزار- مناسك المزار(للمفيد)،  ص27، باب وجوب زيارة الحسين؛ وسائل الشيعة،ج‏14، ص428، باب كراهة ترك زيارة الحسين ع ..... ص : 428)

موسی بن قاسم خضرمی کہتے ہیں: منصور کے دور حکومت کے شروع کے دنوں میں، امام صادق (ع) نجف تشریف لائے اور  فرمایا، راستے پر جائے اور اس شخص کا  انتظار کرے جو قادسیہ کی جانب سے آرہا ہے، اور جب وہ آجائے تو اسے امام(ع) کا سلام پہونچائے اور امام کی خدمت میں لائے۔
وہ شخص جسکا نام موسی تھا، کہتا ہے: حکم کی تعمیل کے لئے راستے میں بیٹھ گیا، سورج کی جھلسا دینے والی گرمی میں مایوسی کی حد تک اس مسافر کا انتظار کیا اور آخرکار وہ آگیا۔ حضرت امام صادق(ع) کا پیغام پہونچانے کے بعد اسے آپ(ع) کے خیمے کی طرف لے گیا اور خود ان لوگوں سے دور اس طرح کہ ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہا تھا خیمہ کے در پر کھڑا ہوگیا، لیکن ان کی آواز سن رہا تھا؛ وہیں پر بیٹھ گیا۔
امام صادق (ع) نے اس پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟
جواب دیا: یمن کے دوردراز علاقہ سے۔
اس وقت امام(ع) نے اس کے علاقہ کی باتیں اور خصوصیات اس سے بتائیں اور اس نے تائید کی، اس کے بعد آپ(ع) نے فرمایا: یہاں پر آنے کا مقصد کیا ہے؟
کہا: امام حسین (ع) کی زیارت کے لئے آیا ہوں۔
فرمایا: فقط زیارت کے لئے؟
کہا: ہاں! فقط اپنے آقا کی زیارت اور ان کی قبر اطہر کے کنارے نماز پڑھنے اور قریب سے درود پڑھنے کے لئے۔۔۔
امام (ع) نے فرمایا: ان کی زیارت  کے عوض کون سے اجر و ثواب کے امید رکھتے ہو؟
کہا: ہم ان کی زیارت سے مال و اولاد میں برکت، سلامتی اور طول عمر اورحاجتوں کے پوری ہونے کی امید رکھتے ہیں۔
فرمایا: اے یمنی بھائی! کیا میں اللہ کے فضل سے اس ثواب میں اور اضافہ کردوں؟
کہا: یابن رسول اللہ(ع) اضافہ فرما دیں۔
فرمایا: حضرت ابا عبداللہ (ع) کی زیارت کا ثواب حضرت رسول خدا(ص) کے ساتھ انجام دیے گئے حج مقبول کے برابر ہے۔
وہ متعجب ہوا۔
امام(ع) نے فرمایا: جی ہاں! بلکہ رسول خدا (ص) کے ساتھ دو حج مقبول کے برابر۔
اس کے استعجاب میں مزید اضافہ ہوگیا۔
اور امام صادق (ع) ثواب میں اضافہ کرتے چلے گئے یہاں تک کہ تیس پاک و پاکیزہ اور مقبول اور رسول خدا (ص) کے ساتھ انجام دیئے گئے حج کے برابر۔
(كامل الزيارات،ص162، الباب السادس و الستون؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏98، ص37۔)

حضرت امام حسین (ع) کی زیارت کی تاکید اور فضیلت و ثواب کے سلسلہ میں  کثیر تعداد میں روایتیں موجود ہیں، اور محبین اہل بیت (ع) نے اسی کے پیش نظر زیارت کا خوب اہتمام بھی کیا، اس کی ایک مثال متوکل کا زمانہ ہے، وہ قبر امام حسین (ع) کو اپنی حکومت کے خلاف سمجھتا تھا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا لوگ دن و رات زیارت کے لئے جارہے ہیں۔ لہذا اس نے کربلا کے آس پاس سکیورٹی لگا دی، اس کے کارندے جیسے ہی دیکھتے تھے کوئی زیارت کے لئے جارہا ہے گرفتار کرلیتے تھے۔
(بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج45، ص397۔)

۔ ائمہ کرام(ع) آپ (ع) کی ذریت میں سے ہیں

محمد بن مسلم کہتےہیں: سمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع وَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ع يَقُولَانِ‏ إِنَ‏ اللَّهَ‏ عَوَّضَ‏ الْحُسَيْنَ ع مِنْ قَتْلِهِ أَنَّ الْإِمَامَةَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِي تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ.
میں نے امام باقر و امام صادق علیہما  السلام سے سنا کہ فرماتے ہیں امام حسین (ع) کو شہادت کے عوض یہ صلہ عنایت فرمایا ہے کہ  امامت کو ان کی ذریت اور اولاد میں قرار دیا۔ ان کی تربت میں شفا قرار دی۔ (مٹی کھانا حرام ہے سوائے قبر امام حسین کی مٹی کے)۔ ان کی قبر کے پاس دعا مستجاب ہے۔
(وسائل الشيعة،ج‏14، ص423، 37 - باب تأكد استحباب زيارة الحسين۔)

۔ وہ تنہا امام جس کا سر تن سے جدا ہوا
امام حسین (ع) وہ امام ہیں جن کا سر ان کی زندگی میں ان کے تن سے جدا کیا گیا۔
امام رضا(ع) نے فرمایا: یا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ‏ ذُبِحَ‏ كَمَا يُذْبَحُ‏ الْكَبْشُ‏
اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو کہ  انہیں اس طرح ذبح  کیا گیا جیسے گوسفند(بھیڑ) کو کیا جاتا ہے۔
(وسائل الشيعة ، ج‏14، ص 502،  باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛  الأمالي( للصدوق)،ص 130،  المجلس السابع و العشرون۔)

سب سے عظیم یوم مصیبت:
عبد اللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں: قلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ ع يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ كَيْفَ‏ صَارَ يَوْمُ‏ عَاشُورَاءَ يَوْمَ مُصِيبَةٍ وَ غَمٍّ وَ جَزَعٍ وَ بُكَاءٍ دُونَ الْيَوْمِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَتْ فِيهِ فَاطِمَةُ ع وَ الْيَوْمِ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ الْيَوْمِ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ الْحَسَنُ ع بِالسَّمِّ فَقَالَ إِنَّ يَوْمَ الْحُسَيْنِ ع أَعْظَمُ مُصِيبَةً مِنْ جَمِيعِ سَائِر الْأَيَّامِ وَ ذَلِكَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكِسَاءِ الَّذِي كَانُوا أَكْرَمَ الْخَلْقِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى كَانُوا خَمْسَةً فَلَمَّا مَضَى عَنْهُمُ النَّبِيُّ ص بَقِيَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ ع فَكَانَ فِيهِمْ لِلنَّاسِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَتْ فَاطِمَةُ ع كَانَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ لِلنَّاسِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَى مِنْهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع كَانَ لِلنَّاسِ فِي الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَى الْحَسَنُ ع كَانَ لِلنَّاسِ فِي الْحُسَيْنِ ع عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ ع لَمْ يَكُنْ بَقِيَ مِنْ أَهْلِ الْكِسَاءِ أَحَدٌ لِلنَّاسِ فِيهِ بَعْدَهُ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَكَانَ ذَهَابُهُ كَذَهَابِ جَمِيعِهِمْ كَمَا كَانَ بَقَاؤُهُ كَبَقَاءِ جَمِيعِهِمْ فَلِذَلِكَ صَارَ يَوْمُهُ أَعْظَمَ مُصِيبَةً 
امام صادق (ع) سے عرض کیا: یوم عاشورا کیسے یوم مصیبت، یوم غم اور یوم گریہ و بکا ہوا، جبکہ وفات رسول، یا جس دن حضرت زہرا(س) شہید ہوئیں یا جس روز امیرالمومنین(ع) شہید ہوئے یا جس دن امام حسن(ع) مسموم ہوئے ایسا نہ ہوا؟  فرمایا: شہادت امام حسین کے دن کی مصیبت تمام ایام کی مصیبت سے بڑھ کر ہے،اس لئے کہ اصحاب کساء خدا کے نزدیک تمام مخلوقات سے باعظمت ہیں، اور وہ پانچ لوگ تھے، جب پیغمبر (ص) دنیا سے گئے، ابھی امیر المومنین(ع)، فاطمہ(س)، حسن و حسین(ع) زندہ تھے تاکہ لوگوں کے واسطے تسلی خاطر بنیں، جب حضرت زہرا(س) رخصت ہوئیں، امیرالمومنین(ع)، حسن، حسین(ع) باحیات تھے تاکہ لوگوں کو تسلی ملے اور صبر اختیار کریں، جب امیرالمومنین(ع) لوگوں کے درمیان سے گئے، حسن و حسین تسلی کے لئے موجود تھے، جب حسن (ع) شہید ہوئے پھر بھی حسین (ع ) موجود تھے لیکن جب حسین(ع) قتل ہوئے اب اصحاب کساء میں سے کوئی نہیں بچا تھا جو لوگوں کے لئے تسلی کا سبب بنے، لہذا ان کے(امام حسین (ع) کے) نہ ہونے پر ایسا تھا جیسے سب کے سب چلے گئے، جیسے ان کے رہنے پر ایسا تھا جیسے سب کے سب موجود ہوں، اسی بنا پر ان کی شہادت کا دن، سب سے عظیم مصیبت کا دن قرار پایا۔
(علل الشرائع، ج‏1، ص225،162 باب العلة التي من أجلها صار يوم عاشوراء أعظم الأيام مصيبة؛ الفصول المهمة في أصول الأئمة،ج‏3، ص412، باب 136 - ان يوم عاشوراء اعظم الايام مصيبة۔)

حضرت امام باقر علیہ السلام زیارت عاشورا میں فرماتے ہیں:
مصِيبَةٍ مَا أَعْظَمَهَا وَ أَعْظَمَ‏ رَزِيَّتَهَا فِي الْإِسْلَام‏
مصیبت عاشورا اسلام اور زمین و آسمان میں اتنی عظیم مصیبت ہے جس سے  بڑی کوئی مصیبت نہیں۔
(كامل الزيارات، ص177؛ مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص775؛ زاد المعاد - مفتاح الجنان، ص235، الفصل الثاني في زيارة الإمام الحسين عليه السلام۔)

۔ حضرت امام حسین (ع) پر تمام موجودات نے گریہ کیا
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ما بَكَتِ‏ السَّمَاءُ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا إِلَّا عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع فَإِنَّهَا بَكَتْ عَلَيْهِ أَرْبَعِينَ يَوْماً.
یحیی بن زکریا کے بعد آسمان نہیں رویا سوائے حسین بن علی (ع) پر، آسمان حسین بن علی(ع)پر چالیس دن تک رویا۔
(كامل الزيارات،ص90، الباب الثامن و العشرون۔)

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے: إنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ لَمَّا قُتِلَ بَكَتْ عَلَيْهِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ السَّبْعُ وَ مَا فِيهِنَّ وَ مَا بَيْنَهُنَّ وَ مَنْ يَتَقَلَّبُ فِي الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ مَا يُرَى وَ مَا لَا يُرَى‏
جس وقت امام حسین (ع) کو قتل کیا گیا ساتوں زمین و آسمان، اور جو چیز ان میں ہے اور جو بھی ان کے درمیان ہے اور جو جنت و جہنم میں ہے جو چیز دکھائی دیتی ہے اور جو دکھائی نہیں پڑتی سب نے گریہ کیا۔
(بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏45، ص202۔)

حضرت امام عصر عج: بكَتْهُ‏ السَّمَاءُ وَ مَنْ فِيهَا وَ الْأَرْضِ وَ مَنْ عَلَيْهَا
ان پر آسمان اور جو اس میں ہے اور زمین اور جو اس پر ہے سب نے گریہ کیا۔
(مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص826؛ زاد المعاد - مفتاح الجنان، ص51، الفصل الثالث في الفضائل و الأعمال المختصة بأول الشهر حتى الأيام البيض۔)

۔ سر بریدہ کا قرآن کی تلاوت کرنا
امام حسین(ع) کی وہ تنہا ذات گرامی ہے جس نے شہادت کے بعد بھی کلام کیا ہے، امام(ع) کا سر نوک نیزہ پر تھا اور آیت کی تلاوت کررہا تھا:
عنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّهُ قَالَ مُرَّ بِهِ عَلَيَّ وَ هُوَ عَلَى رُمْحٍ وَ أَنَا فِي غُرْفَةٍ فَلَمَّا حَاذَانِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ ’’أَمْ‏ حَسِبْتَ‏ أَنَ‏ أَصْحابَ‏ الْكَهْفِ‏ وَ الرَّقِيمِ كانُوا مِنْ آياتِنا عَجَباً‘‘ فَقَفَّ وَ اللَّهِ شَعْرِي وَ نَادَيْتُ رَأْسُكَ وَ اللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَعْجَبُ وَ أَعْجَب‏
زید بن ارقم کہتے ہیں وہ سر جو نیزہ پر تھا میرے سامنے سے گذارا گیا  اور میں بالاخانے پر تھا تبھی جب  وہ سر قریب پہونچا ،میں نے اسے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا: ’’ام حسب ان اصحاب۔۔۔۔‘‘  تو بخدا  ڈر سے میرے بدن کے روئیں کھڑے ہوگئے، اور  میں نے چلا کر کہا: خدا کی قسم یابن رسول اللہ (ص) آپ کا سر تو اس (واقعہ اصحاب کہف) سے بھی حیرت ناک ہے۔
(الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج‏2، ص117؛ إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص252؛ الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف، ج‏1، ص83۔)

۔ اربعین
اربعین (چہلم) اور زیارت اربعین بھی تمام ائمہ میں فقط امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے یہاں تک کہ زیارت اربعین مومن کی علامتوں میں سے شمار کی گئی ہے۔
امام حسن عسکری (ع)سے روایت ہے:  علَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ‏ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏.
پانچ چیزیں مومن کی علامتوں میں سے ہیں ۱۔ اکیاون رکعت نماز پڑھنا۔ ۲۔ زیارت اربعین۔ ۳۔ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا۔ ۴۔  سجدہ میں پیشانی کو خاک پر رکھنا۔ ۵۔ بلند آواز سے بسم اللہ کہنا۔
(كتاب المزار- مناسك المزار(للمفيد)،ص53، باب فضل زيارة الأربعين؛ تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏6، ص52؛ مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص788۔)

اس کے علاوہ خود زیارت اربعین اگر کسی امام کے لئے منصوص ہے تو وہ حضرت سید الشہداء کی ذات گرامی ہے۔

۔ السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيدِ السَّلَامُ عَلَى أَسِيرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيلِ الْعَبَرَات.