• صارفین کی تعداد :
  • 1323
  • 1/25/2018 4:11:00 PM
  • تاريخ :

خدا كي صفات ذاتيہ اور فعليہ

صفات ثبوتيہ كي دو قسميں ھيں: ۱۔ صفات ذاتيہ ۔۲۔ صفات فعليہ

 
خدا كي صفات ذاتيہ اور فعليہ


صفات ثبوتيہ كي دو قسميں ھيں: ۱۔ صفات ذاتيہ ۔۲۔ صفات فعليہ

صفات ذاتيہ:ان صفات كو كھاجاتا ھے جو ھميشہ خدا كي ذات كے لئے ثابت ھيں اور اس كي ذات كے علاوہ كسي چيز پر موقوف نھيں ھے، ان كو صفات ذاتيہ كھتے ھيں جسے علم و قدرت وغيرہ ۔

يہ صفات ذاتيہ ھميشہ خدا كے ساتھ ھيں بلكہ اس كي عين ذات ھيں ان كا ثبوت كسي دوسرے وجود پر موقوف نھيں ھے خدا كي ذات عالم تھي دنيا كو خلق كرنے سے پھلے قادر ھے چاھے كسي چيز كو نہ پيدا كرے، ھميشہ سے زندہ ھے اور ھميشہ رھے گا موجودات رھيں يا نہ رھيں، اس كا علم و قدرت و حيات وغيرہ سب عينِ ذات ھيں، كبھي بھي اس كي ذات ان صفات كماليہ سے خالي نھيں ھو سكتي ھے، اس لئے كہ وہ عين ذات ھے، ورنہ خدا كي ذات كا محدود و ناقص اور محتاج ھونا لازم آئے گا جو خدا كي ذات سے بعيد ھے ۔

صفات فعليہ:ان صفات كو كھتے ھيں جو خداوند عالم كے بعض كاموں سے اخذ كي جاتي ھيں جيسے رازق و خالق اور جواد وغيرہ، جب اس نے موجودات كو خلق كيا تو خالق پكارا گيا، جب مخلوقات كو رزق عطا كيا تو رازق كھاگيا، جب بخشش و كرم كا عمل انجام ديا تو جواد ھوا، جب بندوں كے گناھوں اور عيبوں كو پوشيدہ اور معاف كيا تو غفور كھلايا،اس طرح كے صفات خدا اور بندوں كے درميان ايك خاص قسم كے رابطہ كي طرف اشارہ كرتے ھيں ۔

 ايك حديث

 حسين بن خالد بيان كرتے ھيں: ميں نے امام علي بن موسيٰ الرضا (ع) كو فرماتے ھوئے سنا: آپ ارشاد فرمارھے تھے: خدا ھميشہ سے قادر اور عالم و حي ھے، ميں نے عرض كي يا بن رسول (ص) اللہ ! بعض لوگوں كا خيال ھے كہ علم خدا زائد بر ذات ھے، قادر ھے مگر زائد بر ذات ھے، زندہ ھے مگر زائد بر ذات ھے، قديم ھے مگر قديم زائد بر ذات ھے، ايسے ھي سميع و بصير ديكھنے اور سننے والا ھے، مگر ديكھنا اور سننا زائد برذات ھے؟ امام (ع) نے فرمايا: جس شخص نے خدا كے ان صفات كو زائد بر ذات جانا وہ مشرك ھے اور وہ ھمارا پيرو كار اور شيعہ نھيں ھے، خدا ھميشہ سے عالم و قديم حي قادر اور سميع و بصير ھے (اور رھے گا) ليكن اس كي ذات اور يہ صفات عين ذات ھيں ۔(۱)

صفات سلبيہ

 ھر وہ صفات جو يہ بيان كرے كہ اس كي ذات نقص و عيب سے پاك و مبرا ھے اسے صفات سلبيہ كھتے ھيں، خداوند عالم كي ذات كامل اور اس ميں كوئي عيب و نقص نھيں پايا جاتا ھے، لھذا ھر وہ صفات جو نقص يا عيب خداوند عالم پر دلالت كرے ان صفات كو سلب اور جدا كرنا ضروري ھے ۔

 صفات سلبيہ يا جلاليہ يہ ھيں:

 ۱۔خدا مركب نہيں ہے: ھر وہ چيز جود و جز يا اس سے زائد اجزا سے مل كر بنے اسے مركب كہتے ہيں، اور خدا مركب نہيں ہے اور نہ اس ميں اجزا كا تصور پايا جاتا ہے، كيونكہ ہر مركب اپنے اجزا كا محتاج ہے اور بغير اس اجزا كے اس كا وجود ميں آنا محال ہے، اگر اللہ كي ذات بھي مركب ھو تو، مجبوراً اس كي ذات ان اجزا كي ضرورتمند ھوگى، اور ھر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بھت سے اجزا كا مجموعہ ھو، وہ واجب الوجودا ورخدا نھيں ھو سكتي ۔(۲)

دوسرے: ھر مركب علت كا محتاج ھوتا ہے يھاں تك كہ اس كے اجزائے تركيبيہ مليں اور اس كو تشكيل ديں، پھر علت آكر اس كو وجود ميں لائے اگر خدا ايسا ہے تو اس كو اپنے وجود ميں علت اور اجزائے تركيبيہ كا محتاج ھونا لازم آئے گا، لہٰذا جو ذات ناقص اور اپنے وجود ميں علت كي محتاج ھو، وہ واجب الوجود خدا نھيں ھو سكتي ۔

۲۔ خدا جسم نھيں ركھتا:اجزا سے مركب چيز كو جسم كھتے ہيں، اور اوپر بيان ھوا كہ خدا مركب نھيں ہے، لھذا وہ جسم بھي نھيں ركھتا ہے ۔(۳)

ھر جسم كے لئے ايك جگہ و مكان كا ھونا ضروري ہے، اور بغير مكان كے جسم نھيں رہ سكتا، جب كہ خداوند عالم خود مكان كو پيدا كرنے والا ہے اس كا ضرورتمند و محتاج نھيں ہے اگر خدا جسم ركھے اور مكان كا محتاج ھو تو وہ خدا واجب الوجود نھيں ھو سكتا ہے ۔

۳۔خدا مرئي نھيں:خدا دكھائي نہيں دے سكتا ہے، يعني اس كو آنكھ كے ذريعہ كوئي ديكھنا چاھے تو ممكن نہيں، اس لئے كہ دكھائي وہ چيز ديتي ہے جو جسم ركھے اور خدا جسم نھيں ركھتا ہے لہذا اس كو نھيں ديكھا جا سكتا ۔

۴۔ خدا جاھل نھيں ہے:جيسا كہ صفات ثبوتيہ ميں بيان ھوا، خدا ھر چيز كا عالم ہے، اور اس كے علم كے لئے كسي طرح كي قيد و شرط و حد بندي نھيں ہے، اور جھالت و ناداني عيب و نقص ہے اور خداوند عالم وجود مطلق عيب و نقص سے پاك ہے۔

۵۔ خدا عاجز و مجبور نھيں:پھلے بھي صفات ثبوتيہ ميں گذر چكا ھے كہ خدا ھر كام كے كرنے پر قادر اور كسي بھي ممكن كام پر مجبور و عاجز نھيں ھے اور اس كي قدرت كے لئے كسي طرح كي كوئي مجبوري نھيں ھے اسلئے كہ عاجزي و مجبوري نقص ھے اور خدا كي ذات تمام نقائص سے مبراو منزہ ھے۔

۶۔خدا كيلئے محل حوادث نھيں:خداوند عالم كي ذات ميں كسي طرح كي تبديلي و تغيير ممكن نھيں ھے جيسے كمزورى، پيرى، جواني اس ميں نھيں پائي جاتي ھے، اس كو بھوك، پياس، غفلت اور نيند نيز خستگي وغيرہ كا احساس نھيں ھوتا، اسلئے يہ تمام چيزيں جسم و مادہ كے لئے ضروري ھيں اور پھلے گذر چكا ھے كہ خدا جسم و جسمانيات سے پاك ھے لہٰذا خدا كي ذات محل حوادث يعني تغير و تبديلي كي حامل نھيں ھے ۔

۷۔ خدا كا شريك نھيں: اس مطلب كي دليليں توحيد كي بحث ميں ذكر كي جائيں گيں ۔

۸۔ خدا مكان نھيں ركھتا:خدا وند عالم كسي جگہ پر مستقر نھيں ھے نہ زمين ميں اور نہ ھي آسمان ميں كيونكہ وہ جسم نھيں ركھتا، اس لئے مكان كا محتاج نھيں ھے ۔

خدا نے مكان كو پيدا كيا،اور خود ان مكانات سے افضل و برتر،نيز تمام موجودات پر احاطہ كئے ھوئے ھے، كوئي جگہ اس كے وجود كو نھيں گھير سكتي وہ تمام جگہ اور ھر چيز پر تسلط ركھتا ھے، اس كا ھر گز يہ مفھوم نھيں ھوتا كہ اس كا اتنا بڑا جسم ھے، جو اس طرف سے لے كر اس طرف تك پورا گھيرے ھوئے ھے، بلكہ اس كا وجود، وجود مطلق ھے يعني اس ميں جسم و جسمانيات كا گذر نھيں ھے، اور نہ اس كے لئے كوئي قيد و شرط (يھاں رھے يا اس وقت وھاں رھے) پائي جاتي ھے لہذا كسي جگہ كا وہ پابند نھيں تمام موجودات پر احاطہ ركھتا ھے، كوئي چيز اس كے دست قدرت سے خارج نھيں ھے، لھذا اس كے لئے يھاں اور وھاں كھنا درست نھيں ھے ۔

سوال يہ پيدا ھوتا ھے كہ پھر دعا كے وقت ھاتھوں كو كيوں آسمان كي طرف اٹھاتے ھيں؟ آسمان كي طرف ھاتھوں كے اٹھانے كا يہ مطلب نھيں ھے كہ خداوند عالم كي ذات والا صفات آسمان پر ھے، بلكہ ھاتھوں كو آسمان كي طرف بلند كرنے سے مراد درگاہ خدا ميں فروتني و انكساري و عاجزي و پريشاني كے ساتھ سوال كرنا ھے ۔

مسجد اور خانہ كعبہ كو خدا كا گھر كيوں كھتے ھيں؟ اس لئے كہ وھاں پر خدا كي عبادت ھوتي ھے، اور خدا نے اس مقام كو اور زمينوں سے بلند و برتر و مقدس بنايا ھے (جيسے خداوند عالم نے مومن كے دل (قلب) كو اپنا گھر كھاھے اور كھتا ھے خدا ھر جگہ و ھر طرف موجود ھے، "فَاَينَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ" (۴)

۹۔خدا محتاج نھيں:خداوند عالم كسي شي كا محتاج نھيں ھے، اس لئے كہ اس كي ذات ھر جھت سے كامل و تام ھے اس ميں نقص اور كمي موجود نھيں ھے جو كسي چيز كا محتاج ھو اور اگر محتاج ھے تو پھر واجب الوجود خدا نھيں ھو سكتا ھے ۔

پھر خداوند عالم نے ھمارے لئے روزہ و نماز جيسے فريضہ كو كيوں واجب كيا ھے؟ اس كا سبب يہ نھيں ھے كہ خدا كي ذات ناقص ھے اور ان عبادتوں كے ذريعہ اپني كمي كو پورا كرنا چاھتا ھے، بلكہ خدا كا مطمحِ نظر يہ ھے كہ انسان عبادت كرے اور اپنے نفس كو نوراني اور كامل كركے اس كي ھميشہ آباد رھنے والي جنت كے لائق ھو جائے ۔

خدا جو ھم سے چاھتا ھے كہ ھم خمس و زكواة و صدقہ ديں، تو اس كا مطلب يہ ھے كہ خدا غريب و فقير، ضرورتمندوں كي مدد اور ان پر احسان كرنا چاھتا ھے، تاكہ لوگ نيكي و احسان ميں آگے آگے رھيں، اس وجہ سے نھيں كہ ھماري معمولي اور مادي مدد سے وہ خود اپني ضرورت كو پورا كرے كيونكہ خود يہ خمس و زكات اور صدقات ھمارے سماج كي اپني ضرورت ھے اور لوگوں كے فائدے كے مدنظر بعض كو واجب قرار ديا اور بعض كو مستحب، ليكن ھر ايك كا مصرف انھيں ضرورتمند افراد كو قرار ديا ھے، قطع نظران چيزوں كے، اگر ھم غور و فكر كريں كہ خدا كي راہ ميں خرچ كرنا مجبوروں اور غريبوں پر احسان و مدد كرنا اور سماج كي ضروريات كو پورا كرنا (جيسے مسجد و امام بارگاہ و مدرسہ كي تعمير كرنا) خود ايك بھترين عبادت اور نفس كو منزل كمال پر پھنچانے اور آخرت ميں منزل مقصود تك پھونچنے كا بھترين راستہ ھے ۔

حوالہ:

۱۔ بحار الانوار، ج۴، ص ۶۲۔

۲۔ خدا مركب نھيں ھے: ھر وہ چيز جود و جز يا اس سے زائد اجزا سے مل كر بنے اسے مركب كھتے ھيں، اور خدا مركب نھيں ھے اور نہ اس ميں اجزا كا تصور پايا جاتا ھے، كيونكہ ھر مركب اپنے اجزا كا محتاج ھے اور بغير اس اجزا كے اس كا وجود ميں آنا محال ھے، اگر اللہ كي ذات بھي مركب ھو تو، مجبوراً اس كي ذات ان اجزا كي ضرورتمند ھوگى، اور ھر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بھت سے اجزا كا مجموعہ ھو، وہ واجب الوجودا ورخدا نھيں ھو سكتي ۔ دوسرے: ھر مركب علت كا محتاج ھوتا ھے يہاں تك كہ اس كے اجزائے تركيبيہ مليں اور اس كو تشكيل ديں، پھر علت آكر اس كو وجود ميں لائے اگر خدا ايسا ھے تو اس كو اپنے وجود ميں علت اور اجزائے تركيبيہ كا محتاج ھونا لازم آئے گا، لہٰذا جو ذات ناقص اور اپنے وجود ميں علت كي محتاج ھو، وہ واجب الوجود خدا نھيں ھو سكتي ۔

۳۔ خدا جسم نھيں ركھتا: اجزا سے مركب چيز كو جسم كھتے ھيں، اور اوپر بيان ھوا كہ خدا مركب نھيں ھے، لہذا وہ جسم بھي نھيں ركھتا ھے ۔

۴۔ لہٰذا تم جس جگہ بھي قبلہ كا رخ كر لو گے سمجھووھيں خدا موجود ھے۔ سورہٴ بقرہ آٓيت ۱۱۵.

( کتاب سبھی کے جاننے کی باتیں،آیت اللہ ابراھیم امینی)

منبع: اشرق