• صارفین کی تعداد :
  • 3764
  • 12/25/2007
  • تاريخ :

گذر گئے تھے کئی دن کہ گھر میں آب نہ تھا 

قطره آب
گذر گئے تھے کئی دن کہ گھر میں آب نہ تھا
مگر حسین(ع) سے صابر کو اضطراب نہ تھا
 نمود و بودِ بشر کیا محیطِ عالم میں   
ہَوا کا جب کوئی جھونکا چلا حباب نہ تھا
فشار سے جو بچا َمیں ہُوا زمیں کو عجب 
صدا یہ قبر نے دی حکمِ بوتراب(ع) نہ تھا
اگر بہشت میں ہوتے نہ کوثر و تسنیم 
  تو رونے والوں کی آنکھوں کا کچھ جواب نہ تھا
نہ جانے برق کی چشمک تھی یا شرر کی لپک
ذرا جو آنکھ جھپک کر کھُلی شباب نہ تھا
حسین(ع) اور طلبِ آب اے معاذ اللہ 
  تمام کرتے تھے حجت سوالِ آب نہ تھا
جسے نبی(ص) نے بُلایا، ہُوا وہ نخل نہال 
ثمر اسے بھی دئیے جو کہ باریاب نہ تھا
علی(ع) کے پائے مبارک نے جو ضیا پائی
وہ نور حضرتِ موسیٰ(ع) کو دستیاب نہ تھا
ہر اک کے ساتھ ہے روشن دلو طلوع و غروب
سحر کو چاند نہ تھا شب کو آفتاب نہ تھا
فقط حسین(ع) کے بچوّں پہ بند تھا پانی
بہت قریب تھی وہ نہر قحطِ آب نہ تھا
یزید تخت پہ تھا اور تلے حسین(ع) کا سر 
اُلٹ گیا تھا زمانہ یہ انقلاب نہ تھا
برہنہ اونٹ پہ سیدانیاں تھیں بلوے میں
وہ دیکھتے تھے تماشہ جنھیں حجاب نہ تھا
وہ لوگ جمع تھے قتلِ حسین(ع) پر کہ جنھیں
خدا سے خوف محمد(ص) سے کچھ حجاب نہ تھا
اُدھر تھی ذاتِ خدا اور اِدھر رسول کریم (ص)
سوائے پردۂ چشم اور کچھ حجاب نہ تھا
ہم اس زمیں پہ ہوئے دفن اے خوشا قسمت  
سوائے رحمتِ باری جہاں حجاب نہ تھا
انیس عمر بسر کردو خاکساری میں 
کہیں نہ یہ کہ غلامِ ابوتراب(ع) نہ تھا

میر انیس (رہ)