• صارفین کی تعداد :
  • 3669
  • 1/2/2008
  • تاريخ :

حضرت علی کا اعزاز

 

علی(ع)

اعزاز

حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول(ص) ان کی بھت عزت کرتے تھے اور  اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاھر کرتے رھتے تھے ۔کبھی یہ کھتے تھے کہ علی مجھ سے ھیں اور میں علی  سے ھوں.کبھی یہ کھا کہ میں علم کاشھر ھوں اور علی اس کا دروازہ ھے . کبھی یہ کھاکہ تم سب میں بھترین فیصلہ کرنے والا علی ھے .,, کبھی یہ کھاکہ علی کومجھ سے وہ نسبت ھے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی .,,کبھی یہ کھاکہ علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ھیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ھوتا ھے.,

 کبھی یہ کھا کہ علی،خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ھیں ,, یھاں تک کہ مباھلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ھوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مھاجرین وانصار میں عقد اخوت پڑھا گیاتو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیااور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں لاکھوں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ھاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح تمھارا سرپرست اورحاکم  میں ھوں اسی طرح علی تم سب کے سرپرست اور حاکم ھیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ھے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عھدی اور جانشینی کااعلان کردیا ھے.

 

رسول کی وفات

ھجرت کو دس برس پورے ھوئے تھے جب پیغمبر خدا (س) اس بیماری میں مبتلا ھوئے جو مرض الموت ثابت ھوئی , یہ خاندان رسول کے لیے ایک قیامت خیز مصیبت کاوقت تھا . علی علیہ السّلام رسول کی بیماری میں برابرآپ کے پاس موجود اور تیمارداری میں مصروف رھتے تھے اور رسول بھی علی علیہ السّلام کااپنے پاس سے ھٹنا ایک لمحہ کے لیے گوارانہ کرتے تھے . آخری وقت میں آپ نے علی علیہ السّلام کو اپنے پاس بلایا اور سینے سے لگا کر بھت دیر تک آھستہ آھستہ باتیں کرتے رھے اور ضروری وصیتیں فرمائیں . اس گفتگو کے بعد بھی علی کو اپنے سے جدا نہ ھونے دیا اور ان کا ھاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا. جس وقت رسول کی روح جسم سے جداھوئی ھے اس وقت بھی علی علیہ السّلام کاھاتھ رسول کے سینے پر رکھاھوا تھا .

 

علی(ع)

بعدِ رسول

جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا وہ بعد رسول آپ کی لاش کو کس طرح چھوڑتا, چنانچہ رسول کی تجھیز وتکفین اور غسل وکفن کاتمام کام علی علیہ السّلام ھی کے ھاتھوں ھوا اورقبر میں آپ ھی نے رسول کو اتارا , رسول کے دفن سے فارغ ھونے کے بعد یہ معلوم ھوا کہ اتنی دیر میں پیغمبر کی جانشینی کاانتظام ھوگیا ھے . اگر کوئی دوسرا انسان ھوتاتو جنگ آزمائی پر تیار ھوجاتا مگر علی علیہ السّلام کو اسلامی مفادات اتنے عزیز تھے کہ آپ نے اپنے حقوق کے اعلان کے باوجود اپنی طرف سے مسلمانوں میں خانہ جنگی پیدا نھیں ھونے دی , نہ صرف یہ کہ آپ نے معرکہ آرائی نھیں چاھی بلکہ جس وقت ضرورت پڑی , اس وقت اسلامی مفادات کی خاطر آپ نے امداد دینے سے دریغ بھی نھیں کی،مشکل مسائل کے فیصلہ اور ضروری مشورہ لئے جانے پر اپنی مفید رائے کااظھار کیا اور اس سے کبھی پھلو نھیں بچایا . اس کے علاوہ بطور خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رھے . قرآن کو ترتیب نزول کے مطابق ناسخ ومنسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا . مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کااور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیااور خود بھی تفسیر ، کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراھم کیا . بھت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کاکام انجام دے سکیں , زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ھوائے زمانہ مخالف بھی ھو اور اقتدار نہ بھی حاصل ھو سکے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاھیے . ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر قومی مفاد کو نقصان نہ پھنچایا جائے اور جھاں تک ممکن ھو انسان اپنی ملّت , قوم اور مذھب کی خدمت ھر حال میں کرتا رھے .